چونکہ جناب اصلاحی صاحب نے پہلے سے ہی یہ سوچ رکھا تھا کہ ’’خبر تواتر کا اسم تو موجود ہے‘‘ لیکن ’’اس کا کوئی صحیح مسمی موجود نہیں ہے‘‘ – لہٰذا آں موصوف نے اس بارے میں کسی تحقیق و جستجو کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی – ’’حدیث کی خدمت‘‘، اس کے ’’تحقیقی درس‘‘ اور اس پر ’’تدبر‘‘ کا یہ انداز کم از کم راقم کے نزدیک تو کسی طرح موزوں نہیں ہے۔
چونکہ جناب اصلاحی صاحب محدثین و فقہاء کی عام روش کے خلاف ’’سنت‘‘ کو ’’حدیث یا خبر‘‘ سے جدا سمجھتے ہیں اس لئے آں محترم نے فقط ’’سنت‘‘ کے لئے عملی تواتر کا درجہ تسلیم کیا ہے۔ ’’حدیث‘‘ یا ’’خبر‘‘ کے متعلق ان کا موقف اور اس پر تبصرہ اوپر پیش ہو چکا ہے، آگے جب آں محترم ’’سنت‘‘ پر بحث کریں گے تو ان شاء اللہ اس کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔
خبر واحد:
’’خبر تواتر‘‘ کے بعد جناب اصلاحی صاحب ’’خبر واحد‘‘ پر بحث کرتے ہوئے ’’ردوقبول کے پہلو سے اخبار آحاد کے درجے‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
’’صاحب الکفایۃ نے اخبار آحاد کو ردوقبول کے پہلو سے تین درجوں میں تقسیم کیا ہے: اول: وہ روایات جن کا حق اور لائق قبول ہونا واضح ہے۔ دوسری: وہ روایات جن کا باطل ہونا واضح ہے اور تیسری: وہ روایات جن کے حق یا باطل ہونے کا پہلو معین نہ ہو رہا ہو۔ اب ان کی تفصیل سنئے۔
وہ روایات جن کا حق اور لائق قبول ہونا واضح ہے: پہلے درجے میں صاحب ’’الکفایۃ‘‘ ان روایات کو رکھتے ہیں جو مندرجہ ذیل خصوصیات کی حامل ہوں:
(أ) عقل جن کی صحت کی گواہی دیتی ہو (مما تدل العقول علي موجبه) اور جن کو عام عقل (Common Sense) قبول کرتی ہو۔ (ب) جن کا تقاضا نصوص قرآن یا نصوص سنت کرتے ہوں۔ (ج) جن کو امت نے قبول کیا ہو۔
وہ روایات جن کا باطل ہونا واضح ہے: دوسرے درجے میں صاحب ’’الکفایۃ‘‘ ان روایات کو رکھتے ہیں جو مندرجہ ذیل خصوصیات کی حامل ہوں:
(أ) جن کو عقل رد کرتی ہو۔ (ب) جو نصوص قرآن اور نصوص سنت متواتر کے منافی یا اس سے متناقض ہوں۔ (ج) جو ایسے امور سے متعلق ہوں کہ جن میں لوگ بدیہی اور قطعی علم کے محتاج ہوں تاکہ ان پر حجت تمام ہو سکے لیکن اس طرح کا علم ان سے حاصل نہ ہو رہا ہو یا ان کا تعلق ایسے اہم واقعہ سے ہو جس کے باب میں متعدد طریقوں سے روایات ہونا ضروری ہے لیکن اس کی روایت نہایت محدود طریقہ
|