Maktaba Wahhabi

181 - 360
کوئی صحیح مسمی موجود نہیں ہے۔ بسا اوقات ایک حدیث کو ’’خبر مشہور‘‘ کا درجہ دے دیا جاتا ہے، لیکن تحقیق پر معلوم ہوتا ہے کہ تین ادوار تک اس کے راوی ایک ایک، دو دو ہیں، جب کہ تیسرے یا چوتھے دور میں اس کے راوی زیادہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ہمارے نزدیک وہ احادیث جنہیں خبر متواتر کہا گیا ہے تحقیق طلب ہیں۔ اگر تحقیق کے بعد وہ مذکورہ تعریف پر پوری اتریں تو انہیں متواتر مانئے، لیکن مصنوعی طور پر کسی چیز کو متواتر بنانا صحیح نہیں ہے۔ البتہ یہ بات یہاں یاد رکھئے کہ جہاں تک سنت کا تعلق ہے اس کو، جیسا کہ آگے وضاحت ہو گی، تواتر کا درجہ حاصل ہے اور یہ تواتر قولی نہیں بلکہ عملی ہے۔‘‘ [1] امام ابن حبان رحمہ اللہ وغیرہ کی اتباع میں جناب اصلاحی صاحب نے خبر متواتر کے عدم وجود کا دعویٰ کیا ہے وہ حدیث کے متعلق ان کے ذاتی ’’علم کی حد تک‘‘ تو درست ہو سکتا ہے، لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے متواتر احادیث کے قلیل الوجود یا عدیم الوجود ہونے کے دعویٰ پر سخت تنقید فرمائی ہے اور اسے کثرت طرق، احوال رجال اور ان سب کے کذب پر اتفاقیہ جمع ہو جانے کے عادتاً محال ہونے کی صفات مقتضیہ وغیرہ سے لاعلمی اور کوتاہ اندیشی پر محمول فرمایا ہے، جیسا کہ اوپر مذکور ہو چکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خود جناب اصلاحی صاحب کو اپنے اس دعویٰ پر پوری طرح شرح صدر حاصل نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ آں موصوف اپنے اس دعویٰ سے صرف چند سطر آگے ہی لکھتے ہیں: ’’—ہمارے نزدیک وہ احادیث جنہیں خبر متواتر کہا گیا ہے، تحقیق طلب ہیں۔ اگر تحقیق کے بعد وہ مذکورہ تعریف پر پوری اتریں تو انہیں متواتر مانئے لیکن مصنوعی طور پر کس چیز کو متواتر بنانا صحیح نہیں ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں کہ جن احادیث کو سابقہ محدثین نے خبر متواتر قرار دیا ہے اگر وہ واقعی ’’تحقیق طلب‘‘ ہیں تو پھر ان کے عدم کے وجود کا دعویٰ از خود بے معنی ثابت ہوا کیونکہ جو چیز ابھی محتاج تحقیق ہے، اس کے وجود یا عدم وجود کا فیصلہ قبل از تحقیق کیوں کر صادر کیا جا سکتا ہے؟ پھر جناب اصلاحی صاحب کا یہ قول کہ ’’اگر تحقیق کے بعد وہ مذکورہ تعریف پر پوری اتریں۔۔ الخ –‘‘ بھی ان احادیث میں سے کچھ یا تمام کے مذکورہ تعریف پر پوری اترنے کے امکان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس ضمن میں مزید تحقیق کرنے سے کسی فرد کو کوئی دوسرا فرد ہرگز نہیں روکتا، بلکہ ہم تو ایسی کوشش کو خوش آمدید کہتے ہیں اور کھلے دل سے یہ چیز دیکھنے کے خواہشمند ہیں کہ دبستان فراہی سے وابستہ جس فرد میں بھی اس کی صلاحیت و ہمت نیز حق تک پہنچنے اور بسروچشم اسے تسلیم کرنے کا داعیہ موجود ہو وہ بشوق ان احادیث کی تحقیق کرے۔
Flag Counter