صدور محال ہو۔
پس جناب حبیب الرحمٰن صاحب کا دعویٰ بھی اصولاً باطل اور علوم حدیث سے ان کی بے بضاعتی کا مظہر ہے۔
خلاصہ یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ’’کذبات ثلاثہ‘‘ سے متعلق حدیث قطعاً صحیح اور ہر اعتبار سے معقول ہے۔ امام رازی رحمہ اللہ سے قبل صدیوں تک ان روایات پر محدثین، فقہاء اور علماء اصول میں سے کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ جن لوگوں نے اس کو آیت [كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا]کے خلاف سمجھا ہے، انہوں نے خطا کی ہے، بلکہ جناب مفتی محمد شفیع صاحب تو ایسا سمجھنے کو ’’جہالت‘‘ سے تعبیر فرماتے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’حدیث کذبات ابراہیم علیہ السلام کو غلط قرار دینا جہالت ہے: مرزا قادیانی اور کچھ دوسرے مستشرقین سے مغلوب مسلمانوں نے اس حدیث کو باوجود صحیح السند ہونے کے اس لئے غلط اور باطل کہہ دیا کہ اس سے حضرت خلیل اللہ کی طرف جھوٹ کی نسبت ہوتی ہے اور سند کے سارے راویوں کو جھوٹا کہہ دینا اس سے بہتر ہے کہ خلیل اللہ کو جھوٹا قرار دیا جائے کیونکہ وہ قرآن کے خلاف ہے اور پھر اس سے ایک کلیہ قاعدہ یہ نکال لیا کہ جو حدیث قرآن کے خلاف ہو خواہ وہ کتنی ہی قوی اور صحیح اور معتبر اسانید سے ثابت ہو وہ غلط قرار دی جائے۔ یہ بات اپنی جگہ تو بالکل صحیح اور ساری امت کے نزدیک بطور فرض محال کے مسلم ہے مگر علماء امت نے تمام ذخیرہ احادیث میں اپنی عمریں صرف کر کے ایک ایک حدیث کو چھان لیا ہے جس حدیث کا ثبوت قوی اور صحیح اسانید سے ہو گیا ان میں ایک بھی ایسی نہیں ہو سکتی کہ جس کو قرآن کے خلاف کہا جا سکے بلکہ وہ اپنی کم فہمی یا کج فہمی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جس حدیث کو رد اور باطل کرنا چاہا اس کو قرآن سے ٹکرا دیا، اور یہ کہہ کر فارغ ہو گئے کہ یہ حدیث خلاف قرآن ہونے کے سبب غیر معتبر ہے، جیسا کہ اسی حدیث میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ الفاظ کذبات سے توریہ مراد ہونا خود حدیث کے اندر موجود ہے، رہا یہ معاملہ کہ پھر حدیث میں توریہ کو کذبات کے لفظ سے کیوں تعبیر کیا گیا؟ تو اس کی وجہ وہی ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کی بھول اور لغزش کو عصیٰ اور غویٰ کے الفاظ سے تعبیر کرنے کی ابھی سورہ طہٰ میں موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں گزر چکی ہے کہ مقربان بارگاہ حق تعالیٰ کے لئے ادنیٰ کمزوری اور محض رخصت اور جائز پر عمل کر لینا اور عزیمت کو چھوڑ دینا بھی قابل مواخذہ سمجھا جاتا ہے اور ایسی چیزوں پر قرآن میں حق تعالیٰ کا عتاب انبیاء کے بارے میں بکثرت منقول ہے الخ۔‘‘ [1]
2- تعذيب الميت ببكاء أهله
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: [وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ][2] یعنی ’’اور کوئی دوسرے کا
|