بوجھ نہ اٹھائے گا۔‘‘ لیکن آیت سے بظاہر متعارض حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع حدیث میں مروی ہے:
’’إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ‘‘[1]’’بےشک میت کو اس کے گھر والوں کے رونے پیٹنے کی بنا پر عذاب دیا جاتا ہے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے سہو، نسیان اور خطاء فہم پر محمول کیا ہے، چنانچہ فرماتی ہیں:
’’يَغْفِرُ اللّٰه لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبْ وَلَكِنَّهُ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ‘‘[2]یعنی ’’اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمٰن کو معاف فرمائے، اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے جھوٹ نہیں بولا ہے، البتہ وہ بھول گئے ہیں یا ان سے خطا ہو گئی ہے۔‘‘
پھر اس حدیث کا پس منظر یوں بیان فرماتی ہیں:
’’إِنَّمَا مَرَّ رَسُول اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا فَقَالَ: «إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لتعذب فِي قبرها‘‘ [3]
یعنی ’’ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک یہودیہ کی قبر کے پاس سے ہوا جس کے اہل خانہ اس پر نالہ و شیون بپا کئے ہوئے تھے تو آں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ لوگ اس پر ماتم کر رہے ہیں حالانکہ وہ اپنی قبر میں مبتلائے عذاب ہے۔‘‘ بظاہر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس صراحت کے بعد حدیث اور قرآن میں کوئی تعارض باقی نہیں رہتا، لیکن چونکہ یہ حدیث صرف حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ہی نہیں بلکہ دوسرے کئی صحابہ سے بھی مروی ہے۔ [4] لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ اس کی یہ توجیہ فرماتے ہیں:
’’يعذب الميت ببعض بكاء أهله عليه إذا كان النوح من سنته لقوله تعاليٰ: قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا، [5] وقال النبي صلي اللّٰه عليه وسلم: كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فإذا لم يكن من سنته فهو كما قالت عائشة [وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ]وھو کقولہ :[وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ][6] شیء‘‘ [7]
یعنی ’’میت کو گھر والوں کے ماتم کی بنا پر عذاب اس وقت ہو گا جب کہ نوحہ و ماتم خود اس کا طریق کار رہا ہو، کیونکہ قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہے: اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ اسی طرح
|