علم حدیث کی چند بنیادی اصطلاحات
ذیل میں ہم علم حدیث کی چند بنیادی اصطلاحات اور ان کا مختصر تعارف پیش کریں گے۔
حدیث
’’حدیث‘‘ کا لغوی مفہوم:
’’حدیث‘‘ کے لغوی معنی جدید یا نئی چیز کے ہیں۔ چونکہ قرآن قدیم ہے اور احادیث نبوی اس کے مقابلہ میں نئی، لہٰذا احادیث نبوی کو مقابلۃً ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وكأنه أريد به مقابلة القرآن لأنه قديم‘‘ [1]
اسی طرح امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لغوی اعتبار سے ’’حدیث‘‘ قدیم کی ضد ہے۔‘‘ [2]
لفظ ’’حدیث‘‘ کی لغوی تحقیق کے ضمن میں علامہ ابو البقاء فرماتے ہیں:
’’حدیث‘‘، تحدیث بمعنی اخبار سے اسم ہے۔ اسی لفظ سے نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف منسوب ہر قول یا فعل یا تقریر کا نام ’’حدیث‘‘ رکھا گیا ہے۔ خلاف قیاس اس کی جمع ’’احادیث‘‘ بیان کی جاتی ہے۔ فراء کا قول ہے کہ ’’احادیث‘‘ کا واحد ’’أحدوثةٌ‘‘ ہے لیکن بعد میں اس لفظ کو ’’حدیث‘‘ کا جمع بنا دیا گیا ہے کیونکہ ’’أحدوثة النبي‘‘ نہیں کہا جاتا۔‘‘ [3]
’’الکشاف‘‘ میں ہے کہ ’’احادیث اسم جمع ہے اور اسی سے حدیث النبی ہے۔‘‘ [4]
لیکن ’’البحر‘‘ میں ہے کہ:
’’الاحادیث‘‘ اسم جمع نہیں ہے بلکہ یہ ’’حدیث‘‘ کے لئے جمع تکسیر ہے، علی غیر القیاس کأ باطیل۔ اسم جمع اس وزن پر نہیں آتا ہے – اور ’’حدیث‘‘ قدیم کا نقیض ہے کیونکہ یہ قرآن کے مقابلہ میں ہے کہ جو قدیم ہے۔ ’’حدیث‘‘ وہ شئ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آئے اور ’’خبر‘‘ جو آں صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسروں سے آئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کے مابین عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے، لہٰذا ہر ’’حدیث‘‘، ’’خبر‘‘ ہے لیکن ہر ’’خبر‘‘، ’’حدیث‘‘ نہیں ہو سکتی۔‘‘ [5]
|