ناسخ و منسوخ کے علم کی ضرورت و اہمیت
صحیح فہم قرآن کی سعادت سے بہرہ ور ہونے کے لئے ضروری ہے کہ کسی مسئلہ کے متعلق قرآن میں جس قدر احکام آئے ہیں، ان سب کو یکجا کر کے پتہ لگایا جائے کہ کون سا حکم کس زمانہ کے لئے تھا؟ اور کون سا کس زمانہ کے لئے ہے؟ اس کا مورد و محل کیا ہے؟ اور دوسرے کا کیا؟ قرآن کی کون سی آیت محکم ہے؟ اور کون سی نہیں؟ اسی طرح کون سی آیت ناسخ ہے؟ اور کون سی منسوخ؟
اس علم کی معرفت کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خاص اس موضوع پر محدثین کرام نے مستقل تصانیف مرتب کی ہیں۔ صاحب ’’کشف الظنون‘‘ نے دس اور علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے چودہ ایسی تصانیف کا تذکرہ کیا ہے۔ [1]
جو شخص احکام متنوعہ کے ان باہمی فرق کو نظر انداز کر کے ان میں خاص توازن، ترتیب و تناسب پیدا کرنے کی سعی پیہم نہیں کرتا اس کو قدم قدم پر مشکلات پیش آتی ہیں، شاید اسی باعث حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ’’جو شخص بھی ناسخ و منسوخ کا علم نہیں رکھتا اس کا رجوع الی القرآن باعث ہلاکت ہے۔‘‘ [2]
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انہی مشکلات کے پیش نظر عام مستشرقین قرآن میں تضاد بیانی اور سوئے ترتیب کا شکوہ کیا کرتے ہیں:
بلا دلیل کسی آیت یا حدیث کو منسوخ یا مؤول کہنا درست نہیں ہے
علامہ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی آیت یا حدیث صحیح کے بارے میں یہ بات کہے کہ یہ منسوخ یا مخصوص ہے، یوں کہنا بھی درست نہیں کہ فلاں نص قابل تاویل ہے اور اس کا وہ مفہوم نہیں جو اس کے ظاہری الفاظ سے متبادر ہے – جب تک کسی دوسری نص یا اجماع سے ثابت نہ ہو کہ یہ نص منسوخ یا مؤول ہے یا کوئی حسی ضرورت اس کی داعی و محرک ہو۔ ان باتوں کی موجودگی میں نسخ یا تاویل کا دعویٰ کرنے والا جھوٹا ہے – آیت کریمہ [وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ ٱللَّـهِ][3] یعنی ’’اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘ سے واضح ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ تمام اوامر میں آپ کی اطاعت واجب ہے اور آیت کریمہ: [أَطِيعُوا۟ ٱللَّـهَ]قرآن کی اطاعت کو واجب ٹھہراتی ہے۔ جو شخص کسی آیت یا حدیث کے منسوخ ہونے کا مدعی ہو گویا وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو
|