’’لا يقال إن قوله تعاليٰ: [ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ﴾لما كان عاما بين الصلوة و خارجها فاختصاصه في حق الصلوة والمؤتم تخصيص للعام فيكون مخصوص البعض وهو ظني فكيف يتمسك به لأنه لما كان ظنيا خرج عن الفرضيه بمعني أنه لا يكفر جاحده فبقي الوجوب وهو كالفرض في حق العمل‘‘ [1]
تخصیص کا یہ دعویٰ ’’السراج المنیر‘‘[2]للعلامہ شربینی خطیب، ’’خیر الکلام‘‘[3]للحافظ محمد گوندلوی اور ’’تحقیق الکلام‘‘[4]للمحدث المبارکفوری وغیرہ میں بھی مذکور ہے۔
شاہ عبدالعزیز دہلوی اپنے ایک فتویٰ میں اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں:
’’وحال آیۃ کریمۃ [ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ]الآیۃ ایں است کہ ہرگاہ امام ایمان سورہ دیگر ضم کند مقتدی خاموش گرویدہ سماعت کند کہ برائے سورہ فاتحہ کہ ام الکتاب است مستثنیٰ است از مفہوم بعض احادیث صحیحہ و علماء محققین و محدثین و مفسرین دریں باب بسیار گفتگو کردہ اند الخ۔‘‘ [5]
یعنی ’’آیت کریمہ: [ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ]کا حال یہ ہے کہ جب امام کوئی دوسری سورت تلاوت کرے تو مقتدی خاموش رہیں اور اسے سنیں، لیکن سورہ فاتحہ کہ جو ام الکتاب ہے بعض احادیث صحیحہ کے مفہوم کے مطابق اس عام حکم سے مستثنیٰ ہے۔ علمائے محققین اور مفسرین نے اس باب میں بہت تفصیل سے گفتگو کی ہے۔‘‘
2- حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ چند اور مثالوں کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:
’’بعض لوگ ان اخبار آحاد کو رد کرتے ہیں جن میں قرآن سے زائد احکام مذکور ہوتے ہیں مگر ان پر تعقب اس طرح کیا گیا ہے: خود وہ لوگ وضو میں کہنیوں تک ہاتھ دھونا قبول کرتے ہیں، حالانکہ یہ بھی زائد حکم ہے اور اس کے عموم کا حصول بھی نصاب سرقہ کی طرح خبر واحد سے ہی ہے۔‘‘ [6]
اخبار آحاد سے ’’زیادت علی الکتاب‘‘ کے متعلق امام شافعی اور امام محمد رحمہما اللہ کے مابین ہونے والا مناظرہ
مشہور ہے کہ:
’’ایک مرتبہ امام محمد رحمہ اللہ علمائے مدینہ طیبہ پر طعن کر رہے تھے کہ مدینہ والے جس مقدمہ میں دو گواہ نہیں
|