پیش کردہ دلائل سے مستفاد ہوتا ہے۔ فی الحال ہم امام یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ کی کوتاہ نظری کے بطلان پر کچھ شواہد پیش کریں گے تاکہ جناب رحمت اللہ طارق صاحب کے اس دعویٰ کی حقیقت آشکارا ہو سکے۔
امام یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ محدثین کی نظر میں
امام یحییٰ بن ابی کثیر (129ھ) صغار تابعین میں سے تھے۔ آپ کی کنیت ابو نصر الطائی تھی۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے آپ کو ’’الإمام‘‘ اور ’’أحد الأعلام الأثبات‘‘کے القاب سے یاد کیا ہے۔ آپ نے ابو سلمہ بن عبدالرحمان، ابو قلابہ، عمران بن حطان، ھلال بن ابی میمونہ اور ایک جماعت سے روایت کی ہے۔ ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے آپ کی روایت صحیح مسلم میں اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے آپ کی روایت سنن النسائی میں مرسلاً مروی ہے۔ آپ سے آپ کے فرزند عبداللہ، عکرمہ بن عمار، معمر، ھشام دستوائی، اوزاعی، ہمام بن یحییٰ، ابان بن یزید اور ایوب بن عتبہ جیسے نابغہ روزگار محدثین کے علاوہ ایک خلق کثیر نے حدیث کی روایت کی ہے۔
شعبہ رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’هو أحسن حديثا من الزهري‘‘ یعنی ’’یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ علم حدیث میں امام زہری سے بہتر ہیں۔‘‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’إذا خالفه الزهري فالقول قول يحييٰ‘‘ یعنی ’’اگر زہری رحمہ اللہ ان کے خلاف روایت کریں تو یحییٰ رحمہ اللہ کا قول درست سمجھا جاتا ہے۔‘‘ امام ابو حاتم رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’ثقة إمام لا يروي إلا عن ثقة‘‘ یعنی ثقہ اور امام ہیں اور صرف ثقات سے ہی حدیث روایت کرتے ہیں۔‘‘ وھیب رحمہ اللہ، ایوب سختیانی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: ’’ما بقي علي وجه الأرض مثل يحييٰ بن ابي كثير‘‘ یعنی ’’اب روئے زمین پر یحییٰ بن ابی کثیر کے مثل کوئی باقی نہیں ہے۔‘‘ امام عجلی رحمہ اللہ نے انہیں ’’ثقہ حسن الحدیث‘‘ قرار دیا ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول گزر چکا کہ ’’علمائے اثبات میں سے تھے۔‘‘ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ’’ثقہ اور ثبت تھے لیکن تدلیس و ارسال کرتے تھے۔‘‘ آں رحمہ اللہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’مشہور حافظ حدیث، لیکن کثیر الإرسال تھے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے ان میں تدلیس کا وصف بھی بیان کیا ہے۔‘‘ [1]
امام یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ کی بالغ النظری اور رفیع الشان محدثیت کے اس تذکرہ کے بعد ہم آں رحمہ اللہ کے مذکورہ قول پر اٹھائے جانے والے بعض اعتراضات کا جائزہ پیش کرتے ہیں:
|