Maktaba Wahhabi

229 - 360
جناب رحمت اللہ طارق صاحب کی طرح جناب امین احسن اصلاحی صاحب بھی امام یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ کے زیر بحث قول پر انتہائی خفا ہیں، چنانچہ اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: ’’جو لوگ احادیث و آثار کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ ان کو خود قرآن پر بھی حاکم بنا دیتے ہیں، وہ نہ تو قرآن کا درجہ پہچانتے ہیں، نہ حدیث کا، برعکس اس کے جو لوگ احادیث و آثار کو سرے سے حجت ہی نہیں مانتے وہ اپنے آپ کو اس روشنی ہی سے محروم کر لیتے ہیں جو قرآن کے بعد سب سے زیادہ قیمتی روشنی ہے۔‘‘ [1] یہی بات آں محترم ایک اور مقام پر یوں فرماتے ہیں: ’’جو لوگ احادیث و آثار کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ ان کو خود قرآن پر حاکم بنا دیتے ہیں، وہ در حقیقت قرآن کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور احادیث کی بھی کوئی شان نہیں بڑھاتے۔ اس کے برعکس جو لوگ احادیث کا سرے سے انکار کر دیتے ہیں وہ اس روشنی ہی سے محروم ہو جاتے ہیں جو قرآن مجید کے بہت سے اجمالات کے کھولنے میں سب سے زیادہ مددگار ہو سکتی ہے۔‘‘ [2] محترم اصلاحی صاحب نے اپنی زیر تبصرہ کتاب ’’مبادئ تدبر حدیث‘‘ میں بھی امام یحییٰ رحمہ اللہ کے اس قول پر اپنی برہمی کا اظہار فرمایا ہے، جس پر تبصرہ ان شاء اللہ آگے اصلاحی صاحب کی مخصوص افکار کے جائزہ کے تحت ضمناً پیش کیا جائے گا، لیکن ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ جناب اصلاحی صاحب نے اپنی خفگی کے باوجود جناب رحمت اللہ طارق صاحب کی طرح امام رحمہ اللہ کی شخصیت کشی نہیں کی ہے، بلکہ انہیں ’’ایک بزرگ‘‘[3]کے نام سے ذکر کیا ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ احادیث کو قرآن پر قاضی کہہ دینے سے بعض لوگوں نے یہ غلط مطلب سمجھ لیا ہے کہ گویا قرآن، احادیث کی عدالت کے کسی کٹہرے میں ایک بے بس و لاچار مجرم کی حیثیت سے کھڑا ہے، اور حدیث کو بحیثیت قاضی اس کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے۔ اگر فیصلہ اس مجرم کے حق میں ہوا تو اس کو قبول کیا جائے گا، اور اگر اس کے خلاف ہوا تو اس کو رد کر دیا جائے گا۔ الفاظ کے ہیر پھیر اور مسجع و مقفیٰ عبارت کے ساتھ اس من مانے مطلب و منشا کو اس طرح مشتہر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کی روح تک کانپ اٹھتی ہے، جیسا کہ اس باب کے آخری صفحات میں بیان کیا جائے گا۔ اس غلط ترجمانی کے نتیجہ میں قاری نادانستہ طور پر ان بزرگوں کے متعلق بدگمانی کا شکار ہو جاتا ہے جن سے کہ یہ اقوال منقول ہیں۔ مگر ان اقوال کا صحیح مطلب و منشا بھی مشہور فارسی مقولہ ’’رموز مملکت خویش خسرواں دانند‘‘ کے مصداق، علم قرآن و حدیث پر گہری
Flag Counter