Maktaba Wahhabi

230 - 360
بصیرت رکھنے والے اصحاب دانش و بینش ہی جانتے ہیں، جناب رحمت اللہ طارق یا جناب امین احسن اصلاحی صاحبان اور ان کے ہم فکر اصحاب کا یہ مقام ہی نہیں کہ وہ ان ائمہ کبار کے اقوال کی رفعت اور گیرائی کا احاطہ کر سکیں، لہٰذا ان حضرات سے اس کی صحیح ترجمانی کی توقع کرنا ہی عبث ہے۔ امام یحییٰ بن کثیر رحمہ اللہ، امام مکحول رحمہ اللہ اور امام اوزاعی رحمہ اللہ وغیرہ کے ہم عصر یا بعد میں آنے والے جتنے بھی مشہور ائمہ حدیث گزرے ہیں ان میں سے کسی سے بھی ان حضرات کے اقوال پر نکارت منقول نہیں ہے۔ محدثین میں سے صرف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے دو متضاد اقوال میں سے ایک قول کے مطابق بھی یہ مقولہ ’’منکر‘‘ نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ ’’جسارت‘‘ کے زمرہ میں آتا ہے۔ آں رحمہ اللہ کے علاوہ باقی تمام محدثین نے تو ان اقوال کی صداقت پر اس قدر اعتماد کیا ہے کہ بعض نے اپنی کتب میں مستقل ابواب ہی اس عنوان سے قائم کئے ہیں: ’’باب السنة قاضية علي كتاب اللّٰه‘‘ [1] ہمارے نزدیک مقولہ: ’’السنة قاضية علي الكتاب، ليس الكتاب قاضيا علي السنة‘‘ کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ کتاب اللہ کی بعض آیات دو یا دو سے زیادہ امور و مطالب کی محتمل ہوتی ہیں، لیکن سنت ایسی تمام آیات کے جملہ محتملات میں سے کسی ایک محتمل کی تعیین کر کے اس آیت کا مقصد و مطلب متعین کرتی ہے۔ اس چیز پر استدلال عموماً ان احادیث سے کیا جاتا ہے جن سے ظواہر قرآن کے خلاف مطلق کو مقید اور عام کو خاص کیا جاتا ہے، ظواہر کتاب کے مقتضی کو یوں ترک کر کے سنت کی طرف رجوع کرنے سے کتاب اللہ پر سنت کی تقدیم لازم نہیں آتی، بلکہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ جو چیز سنت میں معتبر ہے وہی کتاب اللہ کی بھی اصل منشا و مراد ہے۔ پس اس قول کا اصل محرک اصول قرآنیہ کی توضیح میں سنت کا عظیم اثر و کردار ٹھہرا۔ یہ بات علامہ شاطبی رحمہ اللہ کے ان اقوال سے بھی موکد ہوتی ہے، فرماتے ہیں: ’’إن قضاء السنة علي الكتاب ليس بمعني تقديمها عليه و اطراح الكتاب بل ان ذلك المعبر في السنة هو المراد في الكتاب‘‘ (یعنی: ’’سنت کے کتاب پر قاضی ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اسے کتاب پر مقدم ٹھہرایا جائے اور کتاب کو اس کے مقابلہ میں چھوڑ دیا جائے، بلکہ جو کچھ سنت میں بیان کیا جاتا ہے وہ کتاب کی مراد ہوتی ہے۔‘‘) اور ’’هكذا سائر ما بينته السنة من كتاب اللّٰه تعاليٰ فمعني كون السنة قاضية علي الكتاب أنها مبينة له‘‘ (الموافقات للشاطبی 4/7، 8) یعنی ’’یہی معاملہ قرآن کی ان تمام آیات کا ہے جن کی تبیین سنت نے کی ہے، لہٰذا کتاب اللہ پر سنت کے قاضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کتاب اللہ کی شارح ہے۔‘‘ ذیل میں ہم اس قول کے صحیح مطلب و منشا کی وضاحت کے لئے چند مثالیں پیش کرتے ہیں:
Flag Counter