ارشاد الٰہی ہے: [وَأَقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ]یعنی ’’نماز قائم کرو‘‘ لیکن ’’صلوۃ‘‘ کے معنی کی تعیین میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے، کوئی شخص کہے گا کہ ’’صلوۃ‘‘ کے معنی دعاء و تسبیح کے ہیں، کوئی درود و رحمت بیان کرے گا۔ محمد احمد بٹلا جیسا کوئی شخص اس کے معنی ’’پریڈ‘‘ بھی بیان کر سکتا ہے۔ کوئی تجدد پسند شخص اسے نظام ربوبیت یا اشتراکیت سے تعبیر کرے گا جیسا کہ لاہور کے ایک شخص نے بیان کیا تھا، کوئی ’’صلوۃ‘‘ سے مراد محض کولہوں کو ہلانا بتائے گا، اور کوئی شخص یہ کہے گا کہ ’’صلوۃ‘‘ کے صحیح معنی وہ کیفیت اعمال ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکما و عملا یوں ظاہر فرمائی ہے: ’’صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي‘‘[1]اور مسلمانوں کے ہر طبقہ میں نسلاً بعد نسل معروف، مشہود اور معمول بہ ہے۔
اسی طرح قرآن کی آیت: [وَٱلسَّارِقُ وَٱلسَّارِقَةُ فَٱقْطَعُوٓا۟][2] یعنی ’’چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورتوں کے ہاتھ کاٹ دو۔‘‘ اگر اس آیت کی تفسیر میں کوئی شخص یہ کہے کہ یہاں ہاتھ کاٹ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو جرأت نہ ہونے دو کہ وہ چوری کر سکیں، ان کے تمام وسائل ختم کر دو، جو امراء اور با اثر لوگ ان کے دست و بازو اور پناہ دہندہ بنے ہوئے ہوں انہیں ان سے جدا کر دو، آیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ فی الواقع ان کے ہاتھ ان کے تن سے جدا کر دو – تو ظاہر ہے کہ یہ تفسیر قرآن کریم کی صحیح ترجمانی نہ ہو گی کیونکہ حدیث میں ان آیات کی عملی تفسیر اور واضح احکام موجود ہیں، لہٰذا قارئین کرام بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ اگر ہر شخص کو قرآن کے ان الفاظ کے من مانے مطلب بیان کرنے کی چھوٹ دے دی جائے تو قرآن اختلافات کا ایک ناقابل فہم اور ناقابل حل معمہ بن کر رہ جائے گا۔
ظاہر ہے کہ ان تمام اختلافات کے حل کی نہایت مؤثر اور ممکن صورت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ ان تمام معانی میں سے صرف اس معنی کو ہی درست مانا جائے جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں۔ پس جب اس بارے میں آں صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے تو اس سے یہی نتیجہ اور مفہوم نکالا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل ہی (جو کہ سنت اور احادیث کے نام سے معروف ہے) اس بارے میں فیصلہ کن قاضی یا حاکم کی حیثیت رکھتا ہے کہ قرآن کی کسی آیت کے کون سے معنی صحیح اور منشا الٰہی کے مطابق ہیں – یہ ہے اس مقولہ، کہ احادیث قرآن پر قاضی ہیں، کا اصل مفہوم، جس سے نہ قرآن کا ملزم ہونا لازم آتا ہے اور نہ ہی کلام اللہ کی تحقیر و استخفاف کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
|