مامور ہے کہ اس کو خدا کی طرف سے جو بتایا جائے وہ ٹھیک ٹھیک اس کے بندوں کو پہنچا دے۔‘‘ اور ’’اس میں وہ سرمو کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔ اس کو اس کا کوئی حق نہیں ہے‘‘ – تو لازماً یہ ماننا پڑے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بھی اس بارے میں ارشاد فرمایا اس کی ہدایت بھی آں صلی اللہ علیہ وسلم کو یقیناً من جانب اللہ عزوجل بذریعہ وحی ہی ملی ہو گی، اور سنت کا وحی ہونا تو خود جناب اصلاحی صاحب بھی چند صفحات قبل تسلیم کر چکے ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ألا إنِّي أوتيتُ الكتابَ ومثلَهُ معهُ‘‘ (الكفاية في علم الرواية، باب ما جاء في التسوية بين حكم كتاب اللّٰه و حكم سنة رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم في وجوب العمل و لزوم التكليف) ترجمہ: دیکھو، مجھے قرآن دیا گیا اور اس کے مثل اور بھی – اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ سنت مثل قرآن ہے۔ سنت اپنے ثبوت میں بھی ہم پایہ قرآن ہے۔ اس لئے کہ قرآن امت کے قولی تواتر سے ثابت ہے اور سنت عملی تواتر سے ہم ان دونوں کو مقدم و مؤخر نہیں کر سکتے اور کسی کو ادنیٰ و اعلیٰ نہیں قرار دے سکتے الخ۔‘‘ [1]
پس جب اصلاحی صاحب کے نزدیک سنت نبوی قرآن کے مثل وحی الٰہی، ہم پایہ قرآن اور بتواتر ثابت ہے، نیز قرآن و سنت میں سے آں موصوف کے نزدیک کسی کو مقدم و مؤخر یا ادنیٰ و اعلیٰ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا تو پھر سنت سے قرآن کا نسخ درحقیقت وحی الٰہی سے وحی الٰہی کا ہی نسخ ہوا اور کتنی ہی سنت ایسی ہیں کہ جن کا باوجود وحی الٰہی اور ہم پایہ قرآن ہونے کے قرآن کریم میں ذکر نہیں ہے۔ پس جناب اصلاحی صاحب کا اعتراض خود ان کی دلیل سے رفع ہوا، فالحمدللہ علی ذلک۔
تخصیص عموم قرآن کے متعلق اصلاحی صاحب کے نظریات کا جائزہ
جناب اصلاحی صاحب زیر تبصرہ باب کے ذیلی عنوان ’’کیا قرآن کے کسی حکم کی تخصیص حدیث و سنت سے ہو سکتی ہے؟‘‘ کے تحت سنت نبوی سے عموم قرآن کی تخصیص کے جزوی طور پر قائل معلوم ہوتے ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’اب رہا یہ سوال کہ نسخ نہ سہی، لیکن حدیث و سنت سے قرآن کے کسی حکم کی تخصیص ہو سکتی یا نہیں؟ یعنی قرآن کے کسی عام حکم کو حدیث و سنت سے خاص کر دیا جائے اس کے جواب میں تھوڑی سی تفصیل ہے:
(أ) اگر تخصیص کی نوعیت یہ ہے کہ اس سے قرآن کا کوئی عموم اس طرح محدود و ممیّز ہو جائے کہ کسی ایسی چیز کے اس عموم میں شامل ہونے کی راہ مسدود ہو جائے جس کا شامل ہونا لفظ کے مفہوم اور آیت کے منشا کے خلاف ہے تو یہ تخصیص نہ صرف حدیث و سنت کے ذریعے سے بلکہ ہمارے نزدیک قیاس و اجتہاد کے
|