دیا جا چکا ہے۔ کچھ تفصیل ان شاء اللہ آگے ابواب میں بھی آئے گی، لہٰذا یہاں اعادہ کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں دوسری بات یہ عرض کرنی ہے کہ جب کوئی معقول شخص کسی ضعیف حدیث سے بہرصورت احتجاج درست نہیں سمجھتا تو اس سے نسخ قرآن کو کیوں کر جائز سمجھے گا؟ مزید یہ کہ جب تمام دینی معاملات میں استدلال و احتجاج کے لئے بنیادی شرط حدیث کا ’’صحیح‘‘ ہونا ہے تو معیار صحت پر پوری اترنے والی حدیث نسخ قرآن کے معاملہ میں کیوں ناقابل استدلال اور غیر مؤثر قرار پائے گی؟ اس سلسلہ میں ایک آخری بات یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ احادیث کی مدد سے قرآن کے مختلف احکام کو منسوخ کرنے کا بار آج اصلاحی صاحب یا کسی اور شخص کے کاندھوں پر نہیں ہے بلکہ اس بارے میں ہر چیز پوری طرح صاف اور واضح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فریضہ اپنی حیات طیبہ کے دوران خود ہی انجام دیا تھا۔ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان منسوخ اور ناسخ احکام کو جانا اور بلا تردد تسلیم کیا تھا۔ پھر آپ کے عدول صحابہ سے وہ علم بواسطہ تابعین و تبع تابعین نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔ علم کے اسی ذریعہ انتقال کو آپ روایت حدیث کا نام دے سکتے ہیں۔ پس حدیث بالفعل قرآن کے کسی حکم کو منسوخ نہیں کرتی بلکہ اس کے نسخ کی حکایت یا شہادت کا نام ہے اور جس حکایت کے بیان کرنے والے یا جس امر کی شہادت دینے والے نہایت اعلیٰ کردار، صادق اللسان، متقی و متقن اور اعلیٰ حافظہ کے مالک ہوں ان کی حکایت یا شہادت پر شبہ کرنے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔ آگے چل کر جناب اصلاحی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’سنت اگرچہ ان کمزوریوں سے محفوظ ہوتی ہے لیکن وہ قرآن کے کسی حکم کی ناسخ اس وجہ سے نہیں ہو سکتی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حق سرے سے حاصل ہی نہیں تھا کہ آپ قرآن کے کسی حکم میں سرمو تبدیلی کر سکیں الخ‘‘ – حدیث و سنت میں مذکورہ فرق سے قطع نظر جناب اصلاحی صاحب کی طرح تمام امت بھی اس بات پر متفق ہے کہ قرآن کریم اللہ عزوجل کی جانب سے آیا ہے، لہٰذا اس میں تبدیلی کا حق بھی صرف اسی کو ہے، اگر اس میں کسی حکم کو تبدیل کیا گیا تو اسے اللہ تعالیٰ نے ہی تبدیل کیا ہے نیز یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرے سے یہ حق حاصل نہ تھا کہ آپ اپنی مرضی کے مطابق کتاب اللہ میں کوئی ترمیم کر سکیں – لیکن ان متفق علیہ امور سے یہ سمجھ لینا قطعاً غلط ہے کہ اگر کسی صحیح اور ثابت سنت نبوی میں قرآن کے کسی حکم کے منسوخ ہونے کی اطلاع دی گئی ہو تو وہ من جانب اللہ نہیں من جانب رسول اللہ یا کم از کم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ایک غیر واقعی امر ہے، کیونکہ اگر وہ نسخ من جانب اللہ ہوتا تو یقیناً قرآن میں موجود ہوتا اور چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس چیز کا اختیار نہ تھا لہٰذا ایسی حدیث یا سنت متروک قرار دی جائے گی۔ اس سلسلہ میں پہلی بات تو یہ جاننی چاہیے کہ خود بقول جناب اصلاحی صاحب جب ’’پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حق سرے سے حاصل ہی نہیں تھا کہ آپ قرآن کے کسی حکم میں سرمو تبدیلی کر سکیں‘‘، ’’پیغمبر خدا کی طرف سے |