جہاں تک جناب اصلاحی صاحب کے اس قول کا تعلق ہے کہ ’’جب یہ فتنہ اٹھا تو سب سے زیادہ خوبی کے ساتھ جس شخص نے اپنا فرض ادا کیا وہ --- امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔‘‘ تو اس کی حقیقت اوپر جناب فراہی صاحب کے قول پر ہمارے تبصرہ کے تحت بیان کی جا چکی ہے۔ آگے چل کر جناب اصلاحی صاحب نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے متعلق فضل بن زیاد کی جو روایت ’’الکفایۃ فی علم الروایۃ‘‘ سے نقل کی ہے اس سے امام رحمہ اللہ کے نزدیک سنت سے نسخ قرآن کے عدم جواز پر استدلال قطعی بے محل ہے کیونکہ اس روایت میں تو امام رحمہ اللہ نے عمومات قرآن کی سنن نبوی سے تخصیص کے متعلق ایک زبان زد قول ’’السنة قاضية علي الكتاب‘‘ کے بارے میں اپنی محتاط رائے کا اظہار فرمایا ہے، اس پر نکارت نہیں فرمائی۔ اس قول سے اگرچہ عقلاً اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ کی روایت سے نقلاً سنت سے نسخ قرآن کا مفہوم بھی مراد لیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ روایت زیر بحث میں سائل نے امام رحمہ اللہ سے عمومات قرآن کی تخصیص بالسنن کے ضمن میں اس قول کی حقیقت دریافت کی تھی لہٰذا امام رحمہ اللہ کے جواب کو بھی صرف تخصیص سے متعلق ہی سمجھا جائے گا۔ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے بھی امام رحمہ اللہ کے اس قول کو اپنی کتاب ’’الكفاية في علم الرواية‘‘ کے باب ’’تخصيص السنن لعموم محكم القرآن و ذكر الحاجة في المجمل إلي التفسير والبيان‘‘ [1] کے تحت ہی ذکر فرمایا ہے۔ پس جناب اصلاحی صاحب کا مذکورہ روایت سے احتجاج بے محل ثابت ہوا۔
پھر سب سے قابل گرفت چیز تو اس روایت کی ترجمانی یا اس سے مستفاد اصلاحی صاحب کے یہ جملے ہیں: ’’یہ سوال بالکل خارج از بحث ہے کہ کوئی حدیث یا سنت قرآن کی ناسخ ہو سکے۔ سنت اور حدیث کی اہمیت مسلم ہے لیکن ان کے قرآن پر حاکم ہونے کا دعویٰ باطل ہے‘‘ – امام رحمہ اللہ کی منقولہ عبارت میں تو صرف اس قدر مذکور ہے کہ ’’میں یہ کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا کہ سنت کتاب اللہ پر حاکم ہے۔‘‘ نسخ کتاب کا تو سرے سے اس میں کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے۔ پس اس سیدھی سادی عبارت سے جو مخصوص اور من چاہا فائدہ جناب اصلاحی صاحب نے اخذ کیا ہے وہ آں موصوف کا ہی خاصہ ہے، کوئی ہوش مند سے ہوش مند اور دانشور سے دانشور شخص بھی ایسا کرنے سے قاصر رہے گا۔
جناب اصلاحی صاحب نے آگے چل کر ’’حدیث‘‘ اور ’’سنت‘‘ کے مابین تمییز و تفریق کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ ’’جہاں تک حدیث کا تعلق ہے اس میں ضعف کے اتنے پہلو ہیں کہ ان کا قرآن جیسی قطعی الدلالہ چیز کو منسوخ کر دینا بالکل خلاف عقل ہے۔‘‘ اس بارے میں ہم پہلے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ جناب اصلاحی صاحب نے حدیث میں ضعف کے جن احتمالات کی طرف نشاندہی فرمائی ہے ان کا مفصل جواب اوپر
|