ہے۔ اگر واقعی کوئی شخص ایسا عقیدہ رکھتا ہے تو جمہور علماء کے نزدیک بلاشبہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، برخلاف اس کے سلف سے خلف تک تمام اہل علم وحی سے نسخ وحی کے قائل رہے ہیں۔ اور چونکہ سنت بھی ایک قسم کی وحی ہوتی ہے لہٰذا سنت سے قرآن کا نسخ فی الحقیقت وحی سے وحی کا نسخ ہوا جو کہ بالاتفاق جائز ہے۔
اب ہم جناب خالد مسعود صاحب کے قول کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو کہ اس بارے میں ان کے استاذ الأستاذ کے موقف کا ترجمان ہے۔ آں جناب کا یہ دعویٰ کہ خبر اگرچہ متواتر ہو قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی بلا دلیل ہونے کے ساتھ قطعی بے بنیاد اور دین اسلام کے عمومی مزاج کے خلاف بھی ہے۔ یہ بات ہر شخص تسلیم کرتا ہے کہ قرآن متواتر اللفظ ہے لیکن اس کے نسخ کے لئے اسی کے مثل کسی متواتر شئ کا ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔ اتباع رسول کا تقاضہ تو یہ ہے کہ سنت رسول خواہ متواتر ہو یا آحاد کی قبیل سے، بہرحال ناسخ قرآن ہو سکتی ہے۔ اس بارے میں اصل اور قابل لحاظ شئ صرف صحت روایت ہے، کیونکہ متواتر و آحاد کے مابین صرف کثرت و قلت طرق کا ہی تو فرق ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ یہ ایک علیحدہ موضوع بحث ہے اس لئے ہم اس پر آگے کسی مناسب جگہ گفتگو کریں گے۔
جناب خالد مسعود صاحب کا خبر متواتر سے بھی قرآن کے نسخ کا قائل نہ ہونا باعث حیرت ہے کیونکہ جس طرح قرآن متواتر اللفظ ہے اسی طرح بتواتر منقول ہونے والی خبر بھی قطعی اور یقینی ہوتی ہے۔ پس ان دونوں میں مغایرت کیسی؟ یہاں ایک اور حیرت انگیز انکشاف جناب خالد مسعود صاحب نے یہ فرمایا ہے کہ خبر متواتر ظن کا فائدہ دیتی ہے جیسا کہ آں محترم کے قول: ’’ظن کی بنیاد پر نسخ کا فیصلہ نہیں ہو سکتا‘‘ سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ جملہ محدثین فقہاء اور اصولیین بلکہ پوری امت کے نزدیک خبر متواتر یقین اور قطعیت کا فائدہ دیتی ہے۔ کسی نے بھی خبر متواتر پر ظنی ہونے کا شبہ ظاہر نہیں کیا ہے۔ البتہ اخبار آحاد کے متعلق بعض علماء نے ظنی ہونے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن اس کی تفصیل بھی ان شاء اللہ آگے باب ششم (’’اخبار آحاد کی حجیت‘‘) کے تحت بیان کی جائے گی۔
اب ہم جناب اصلاحی صاحب کے طویل اقتباس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس میں آں محترم نے اپنے استاد جناب حمید الدین فراہی صاحب کی ہی اتباع کی ہے۔ لیکن نہ معلوم آنجناب نے سنت سے نسخ قرآن کے مانعین میں جناب فراہی صاحب کی طرح امام شافعی رحمہ اللہ اور دیگر ’’محدثین‘‘ کا تذکرہ نہیں فرمایا، صرف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ہی ذکر کیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ آں محترم پر جناب فراہی صاحب کے دیگر محدثین کی جانب نسخ القرآن بالسنہ کے عدم جواز کو منسوب کرنے کے دعویٰ کی غلطی منکشف ہو گئی ہو – لیکن امام شافعی رحمہ اللہ، جو کہ اس فکر کے سرخیل سمجھے جاتے ہیں، کو سنت سے نسخ قرآن کے مانعین میں ذکر نہ کرنا باعث تعجب ضرور ہے۔
|