خدا کی طرف سے جو بتایا جائے وہ ٹھیک ٹھیک اس کے بندوں کو پہنچا دے اور پھر بندوں کی ضرورت کے لحاظ سے اس کی تفسیر اور تبیین کر دے۔ اس میں وہ سرمو تبدیلی نہیں کر سکتا۔ اس کو اس کا کوئی حق نہیں ہے چاہے ساری خدائی اس کی دشمن بن جائے۔ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقام ہی نہیں ہے کہ وہ قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کر سکیں تو ان کی طرف منسوب کسی سنت یا حدیث کو آپ یہ درجہ کس طرح دے سکتے ہیں کہ وہ قرآن میں کوئی تبدیلی کر سکتی ہے۔‘‘ [1]
مندرجہ بالا ہر چہار اقتباسات کی روشنی میں یہ بات قطعی طور پر واضح ہو چکی ہے کہ مکتب فراہی سے وابستہ افراد کے نزدیک بالاتفاق سنت، قرآن کی ناسخ نہیں ہو سکتی۔ پہلے ہم جناب حمید الدین فراہی اور جناب خالد مسعود صاحبان کی عبارتوں کا جائزہ لیں گے پھر جناب اصلاحی صاحب کے طویل کلام پر نظر ڈالیں گے۔
ہمارے نزدیک جناب حمید الدین فراہی صاحب کا یہ قول کہ ’’امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل اور محدثین بالعموم حدیث کو – الخ‘‘ کلی طور پر مبنی برصحت نہیں ہے کیونکہ محدثین میں سے صرف امام شافعی رحمہ اللہ سے بصراحت سنت سے نسخ القرآن کا مطلقاً عدم جواز منقول ہے۔ مگر آں رحمہ اللہ کے اس شاذ موقف کی حیثیت ایک اجتہادی خطا سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جہاں تک امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا تعلق ہے تو ان سے اس معاملہ میں دو مختلف نوعیت کی روایتیں آئی ہیں جن میں سے بلاشبہ ایک روایت کے مطابق آں رحمہ اللہ سنت سے نسخ قرآن کے قائل نظر نہیں آتے۔ لیکن جب آں رحمہ اللہ سے دو مختلف نوعیت کے اقوال منقول ہیں تو ان میں سے صرف ایک خاص نوعیت کی روایت کے مدلول کو ترجیح دینے کی کوئی لائق ترجیح وجہ نظر نہیں آتی۔ پھر جن لوگوں کی نگاہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے عمومی طرز عمل پر ہے وہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ آں رحمہ اللہ ان تمام روایات کی صحت و حجیت کے قائل ہیں جو قرآن کے ظاہری حکم پر نسخ کا حکم رکھتی ہیں، لیکن یہ اس کی تفصیل کا موقع نہیں ہے۔
جناب فراہی صاحب نے امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ساتھ دیگر محدثین کو بھی اسی فکر کا حامل بیان کیا ہے جو سراسر خلاف واقعہ بات ہے۔ جناب فراہی صاحب تو اب اس دنیا میں باقی نہیں رہے البتہ ان کے تلامذہ اور اخلاف ضرور موجود ہیں، پس ان پر یہ اخلاقی فرض عائد ہوتا ہے کہ آں موصوف کے اس دعویٰ کو بدلائل ثابت کر دکھائیں۔
جناب فراہی صاحب کا یہ قول بھی کہ ’’یہ ماننا کہ رسول، اللہ کے کلام کو منسوخ کر سکتا ہے الخ۔‘‘ دراصل آنجناب کی منصب رسالت کے فرائض، اختیارات، طریقہ کار اور سنن نبوی کی حقیقت سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ کوئی شخص نہ یہ کہتا ہے اور نہ ہی مانتا ہے کہ کوئی رسول ازخود یا اپنی مرضی کے مطابق کلام اللہ کو منسوخ کر سکتا
|