’’اس کے بعد مولانا فراہی یہ اصول قائم کرتے ہیں کہ اگر کسی حکم کا مأخذ قرآن میں متعین نہ کیا جا سکے اور حدیث کا حکم قرآن کے خلاف نہ ہو بلکہ اس پر اضافہ ہو تو یہ اضافہ اس بنا پر قبول کر لیا جائے گا کہ وہ اس نوروبصیرت کا نتیجہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور خاص عطا ہوئی تھی۔ ایسے احکام کو سنت میں مستقل اصل قرار دیا جائے گا کیونکہ ہمیں اطاعت رسول کا حکم دیا گیا ہے الخ۔‘‘ [1]
4- مخالف قرآن احادیث
ایسی احادیث جو بظاہر قرآنی احکام سے متصادم معلوم ہوتی ہیں لیکن یہ تعارض حقیقی نہیں ہوتا بلکہ معمولی فکر و تدبر سے رفع کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ حدیث نبوی قرآن کریم کی شرح و تفسیر ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: [لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ]سے ظاہر ہے، اور یہ بھی طے شدہ امر ہے کہ یہ بیان و تبیین من جانب اللہ ہی بذریعہ وحی انجام پائی تھی، پس جب قرآن اور اس کی شرح، دونوں چیزیں ہی من جانب اللہ ہیں تو ان دونوں کا ایک دوسرے کے خلاف ہونا عقلاً محال ہوا۔ قرآن میں خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
[وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّٰه لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا][2]
یعنی ’’اگر یہ کلام غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت سارے اختلافات پاتے۔‘‘
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’نحن نقول قولا كليا نشهد اللّٰه وملائكته أن ليس في حديث رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ما يخالف القرآن ولا ما يخالف العقل الصريح بل كلامه بيان للقرآن وتفسير له و تفصيل لما أجمله وكل حديث من رده بزعمه أنه يخالف القرآن فهو مطابق للقرآن و غايته أن يكون زائد اعلي ما في القرآن و هذا الذي أمر رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم بقبوله‘‘ [3]
یعنی ’’ہم اللہ عزوجل اور اس کے فرشتوں کو گواہ بنا کر کلی طور پر یہ کہتے ہیں کہ بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو قرآن یا عقل صریح کے مخالف ہو، بلکہ آں صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام قرآن کی تبیین، اس کی تفسیر اور اس کے اجمال کی تفصیل ہے۔ جس حدیث کو کسی نے یہ سمجھ کر رد کیا ہے کہ وہ مخالف قرآن ہے تو در حقیقت وہ قرآن کے عین مطابق ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسی احادیث قرآن سے زائد مضمون پیش کرتی ہیں اور ان روایات کو قبول کرنے کا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے۔‘‘
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ سے بہت قبل امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اپنی مشہور کتاب ’’الرسالہ‘‘[4]میں اس موضوع پر
|