Maktaba Wahhabi

249 - 360
علامہ نواب صدیق حسن خاں بھوپالی رحمہ اللہ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں: ’’و مثال الثاني آية الوضوء و إنها مدنية إجماعا و فرضه كان بمكة مع فرض الصلوة وكآية الجمعة فإنها مدنية والجمعة فرضت بمكة، قيل والحكمة في ذلك تأكيد الحكم السابق بالآية المتلوة‘‘ [1] یعنی ’’دوسری مثال یہ ہے کہ وضو کی آیت متفقہ طور پر مدنی ہے حالانکہ وضو نماز کے فرض ہونے کے ساتھ مکہ میں فرض ہوا تھا۔ اسی طرح جمعہ کی آیت بھی مدنی ہے جبکہ جمعہ مکہ میں فرض ہوا تھا، چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ سابقہ حکم کو آیت نازل کر کے مؤکد کر دیا جائے‘‘ ان دونوں واقعات سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ آیات وضو و جمعہ نازل ہونے سے قبل بھی ان پر عمل کیا جاتا تھا، حالانکہ ان آیات کے نزول سے قبل تک ان احکام کا قرآن میں کوئی اشارہ تک موجود نہ تھا، پس معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں قرآن سے زائد احکام پر سنت نبوی کے مطابق مسلسل آٹھ سال عمل ہوتا رہا جو اثبات حکم میں سنت پر قطعی اعتماد کی واضح دلیل ہے، خواہ اس کا مضمون قرآن سے زائد ہی ہو۔ حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بھی اس امر کی تائید کرتی ہے: ’’ أَلَا إِنِّيْ أوتيتُ الْكِتابَ وَمثلَهُ معهُ ، لَا يُوشِكُ رجُلٌ شبعانٌ عَلى أَريكتِهِ يَقُولُ عَليكُم بِهذَا القُرآنِ فَمَا وجدتُم فيهِ مِن حَلالٍ فأحلُّوه وما وَجدتُم فيهِ مِن حرامٍ فحرِّمُوه وَإِنَّمَا حَرم رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم كَمَا حَرم الله‘‘ [2] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگاہ رہو مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اسی کے مثل ایک اور چیز۔ عنقریب ایک سیرشکم آدمی مسند پر ٹیک لگائے ہوئے یوں گویا ہو گا کہ قرآن کا دامن تھامے رکھو، جو چیز اس میں حلال ہو اس کو حلال سمجھو اور جو حرام ہو اسے حرام سمجھو۔ لیکن خبردار رہو کہ جس چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام ٹھہرایا ہو وہ بھی اللہ کی حرام کردہ اشیاء کی طرح حرام ہے۔‘‘ قرآن سے زائد احکام پر مشتمل احادیث کے متعلق جناب حمید الدین فراہی صاحب کے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے فراہی مکتب فکر کے ترجمان جناب خالد مسعود صاحب اپنے ایک مضمون: ’’حدیث و سنت کی تحقیق کا فراہی منہاج‘‘ میں لکھتے ہیں:
Flag Counter