پہلی قسم:
وحی متلو: جو مؤلف تالیفاً اور معجز النظام یعنی قرآن کریم ہے۔
دوسری قسم:
وہ وحی جو مروی و منقول، غیر مؤلف، غیر معجز النظام اور غیر متلو ہے۔ وحی کی یہ قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کہ جو ہمارے لئے اللہ عزوجل کی مراد و منشا کے مبین تھے) سے مروی اخبار پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: [لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ][1] – اور ہم یہ بھی پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر اس دوسری قسم کی وحی کی اطاعت بھی پہلی قسم کی وحی (یعنی قرآن کریم) کی طرح بلا تمیز واجب کی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: [ وَأَطِيعُوا اللّٰه وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ][2]، [3]
اور علامہ مفتی محمد شفیع صاحب ’’معارف القرآن‘‘ میں ’’قرآن و سنت کی حقیقت‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں:
’’اس سے اس کلام کی حقیقت معلوم ہو گی جو بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ وحی کی دو قسمیں ہیں: متلو (جو تلاوت کی جاتی ہے) اور غیر متلو (جو تلاوت نہیں کی جاتی)۔ وحی متلو قرآن کا نام ہے جس کے معانی اور الفاظ دونوں اللہ کی جانب سے ہیں اور غیر متلو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے، جن کے الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں اور معانی اللہ کی طرف سے ہیں۔‘‘[4]
1۔ وحی متلو
وحی متلو سے قرآن کریم مراد ہے جیسا کہ مندرجہ بالا اقتباسات سے واضح ہوتا ہے۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت صادقہ کی زندہ دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ اس وحی میں تصرف کا کسی کو اختیار نہیں ہے، ارشاد ہوتا ہے:
[ وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ [١٩٢]نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ][5]
’’یہ قرآن رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔ روح الامین اس کو لے کر اترتے ہیں۔‘‘
اس کی حفاظت و صیانت کی ذمہ داری خود اللہ عزوجل نے لے رکھی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
[ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ [[6]
’’بے شک ہم نے قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘
اس ’’وحی‘‘ کی یہ عظیم خصوصیت ہے کہ اس کی تلاوت حالت نماز اور خارج از نماز دونوں صورتوں میں عبادت اور باعث اجروثواب ہے۔ اس کی روایت بالمعنی قطعاً جائز نہیں۔ وحی کی یہ قسم بہر اعتبار معجزہ ہے، چنانچہ ارشاد
|