’’تیسرا مقصد [ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ﴾، کتاب سے مراد قرآن کریم اور حکمت سے مراد وہ تعلیمات و ہدایات ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً یا عملاً ثابت ہیں۔ اسی لئے بہت سے حضرات مفسرین نے یہاں حکمت کی تفسیر سنت سے فرمائی ہے۔‘‘ [1]
اور جناب حبیب الرحمٰن اعظمی فرماتے ہیں:
’’کتاب و سنت کے انہیں نصوص کی بناء پر تمام ائمہ و علمائے سلف اس بات پر متفق ہیں کہ [يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ]اور اس طرح کی دوسری آیات میں جو الْحِكْمَةَ کا لفظ وارد ہوا ہے اس سے مراد سنت ہی ہے اور سنت بھی وحی الٰہی کی ایک قسم ہے۔‘‘ [2]
پس معلوم ہوا کہ قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی ’’الْكِتَابَ‘‘ کے ساتھ لفظ ’’الْحِكْمَةَ‘‘ مذکور ہے اس کا اطلاق نہ ’’الْكِتَابَ‘‘ پر ممکن ہے اور نہ ’’الْكِتَابَ‘‘ کا ’’الْحِكْمَةَ‘‘ پر، لہٰذا ’’الْكِتَابَ‘‘ سے مراد بلاشبہ قرآن ہے جو کہ معجزہ کلام الٰہی ہے اور ’’الْحِكْمَةَ‘‘ سے مراد وہ سنت نبوی ہے جو انسان میں معرفت حقائق اور فکر و عمل کی صحیح راہ کی تعیین کی صلاحیت پیدا کرتی ہے، واللہ أعلم۔
مگر جناب امین احسن اصلاحی صاحب کے نزدیک ’’حکمت‘‘ قرآن کا ہی ایک جزو ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’حکمت کے متعلق ایک نہایت ہی اہم سوال یہ ہے کہ حکمت قرآن ہی کا ایک جزو ہے یا اس سے علیحدہ کوئی چیز ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ کتاب الٰہی جس طرح آیات اللہ اور احکام پر مشتمل ہے اسی طرح حکمت پر بھی مشتمل ہے۔ لیکن ہمارا یہ دعویٰ ان لوگوں کے خیال کے خلاف پڑے گا جو حکمت سے حدیث یا بعض دوسرے علوم مراد لیتے ہیں اور چونکہ یہ مذہب بعض اکابر ملت، مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کا بھی ہے اس وجہ سے اس کو نظر انداز کرنا مشکل ہے لہٰذا دیکھنا چاہئے کہ جو لوگ حکمت سے حدیث مراد لیتے ہیں ان کی دلیل کیا ہے؟ ان کی دلیل یہ ہے کہ حکمت کا لفظ مندرجہ صدر آیت میں کتاب کے لفظ کے ساتھ آیا ہے۔ کتاب سے یہ لوگ قرآن مجید، باعتبار مجموعی مراد لیتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہوا کہ حکمت سے کوئی اور چیز مراد لیں اور قرآن کے بعد ظاہر ہے کہ حدیث کے سوا کوئی دوسری چیز اس لفظ کا مدلول نہیں بن سکتی۔ لیکن اوپر کے مباحث سے یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ استدلال کچھ مضبوط نہیں ہے۔ آیت مذکورہ میں، جیسا کہ ہم نے تشریح کی ہے، کتاب سے مراد احکام و قوانین ہیں اس لئے حکمت کے لئے خود قرآن میں کافی گنجائش ہے۔ اس سے حدیث یا قرآن سے خارج کسی اور شئ کو مراد لینا کچھ ضروری نہیں ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ حدیث میں بھی حکمت ہے۔ حدیث کا رتبہ بہت بلند ہے۔ وہ امت کے لئے قرآن کے بعد دوسری چیز ہے۔ اس میں خود حکمت قرآن کا بھی ایک بڑا ذخیرہ ہے، پھر اگر حدیث میں حکمت نہ ہو گی تو کہاں ہو گی؟ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کہ
|