اور صاحب ’’شرح المنار‘‘ وغیرہ اپنے اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس خبر واحد کو رد کر دینا جس میں نص قرآنی سے زائد کوئی حکم آیا ہو کیونکہ اس طرح حدیث قرآن کی ناسخ بن جائے گی، حالانکہ سنت قرآن کی نسخ نہیں ہے۔‘‘ [1]
جو لوگ سنت متواترہ سے مع عدم الوقوع، نسخ الکتاب کے جواز کے قائل ہیں، وہ قرآن کریم کی ان عمومی آیات سے استدلال کرتے ہیں جن سے سنت کی قطعیت و حجیت کے اثبات پر احتجاج کیا جاتا ہے۔ یہاں عدم الوقوع سے مراد احکام میں سنت متواترہ کا عدم وجود ہے۔ ان علماء کے نزدیک ’’نسخ قرآن کے لئے سنت ناسخہ کا متواتر ہونا اس لئے شرط ہے کہ قرآن متواتر اللفظ ہے لہٰذا کسی قطعی السند متواتر شئ کے نسخ کے لئے اسی کے مثل متواتر شئ کا موجود ہونا لازم ہے۔‘‘ [2]
(ج) امام ابن حزم رحمہ اللہ اور عام مفسرین کی رائے:
امام ابن حزم رحمہ اللہ اور عام مفسرین ہر سنت سے نسخ قرآن کے مطلقاً جواز کی طرف گئے ہیں، خواہ وہ سنت بتواتر منقول ہو یا اخبار آحاد کی قبیل سے ہو۔ [3] چنانچہ فرماتے ہیں:
’’قرآن کی ایک آیت دوسری آیت کو منسوخ کر سکتی ہے۔ سنت، قرآن کریم اور سنت دونوں کو منسوخ کر سکتی ہے۔‘‘ [4]
محدثین میں سے امام مروزی، امام قرطبی، امام نووی، امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، امام ابن کثیر، امام ابن حجر عسقلانی، امام سخاوی، امام منذری، امام شوکانی، علامہ امیر صنعانی، علامہ نواب صدیق حسن خاں، علامہ شمس الحق عظیم آبادی اور علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری وغیرہم رحمہم اللہ کی رائے بھی امام ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ کی رائے کے موافق ہے۔ عام حنفیہ مثلاً علامہ ابوبکر الجصاص، علامہ بدر الدین عینی، علامہ ملا علی قاری، شاہ ولی اللہ دہلوی، [5]، شاہ عبدالعزیز دہلوی [6]، جناب ثناء اللہ پانی پتی، جناب اشرف علی تھانوی اور جناب مفتی محمد شفیع صاحب وغیرہم کی رائے بھی یہی ہے ’’بشرطیکہ وہ سنت مشہور ہو۔‘‘
علماء کا یہ طبقہ جو اس بات کا قائل ہے کہ ہر صحیح سنت کتاب اللہ کو منسوخ کر سکتی ہے ان کا کہنا ہے کہ اللہ عزوجل نے پہلے اپنی کتاب میں کوئی حکم نازل فرمایا تھا بعد میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس حکم کے
|