اصول شریعت میں حدیث و سنت کی ثانوی حیثیت ناقابل قبول ہے
عموماً دیکھا جاتا ہے کہ استنباط مسائل کے لئے شریعت میں سنت کو قرآن کے بعد دوسرا درجہ دیا جاتا ہے جس سے سنت پر قرآن کی تقدیم لازم آتی ہے۔ اس بارے میں قدیم و جدید تمام مقلدین اور اکثر اہلحدیث، سب ہی حضرات متفق نظر آتے ہیں۔
امام شاطبی رحمہ اللہ نے ’’الموافقات‘‘ میں سنت پر تقدیم کی متعدد وجوہ بیان کی ہیں جو حسب ذیل ہیں:
’’اول: کتاب اللہ قطعی اور سنت مظنون ہے۔ اگر سنت صحیح ہو تو اس میں قطعی چیز صرف منجملہ ہوتی ہے بلحاظ تفصیل نہیں ہوتی جبکہ کتاب منجملہ و تفصیل ہر دو طرح مقطوع ہے۔ اور جو چیز مقطوع ہو وہ مظنون پر مقدم ہوتی ہے، لہٰذا سنت پر کتاب اللہ کی تقدیم لازم آئی۔
دوم: سنت میں یا تو کتاب اللہ کی تبیین و تفسیر ہوتی ہے یا اس پر زیادتی۔ پس اگر سنت میں بیان و تفسیر ہو تو بلحاظ اعتبار مبین کے مقابلہ میں اس کا درجہ دوسرا ہوا کیونکہ سقوط مبین سے سقوط بیان لازم آتا ہے لیکن سقوط بیان سے سقوط مبین لازم نہیں آتا۔ اور یہی اس کا مرتبہ ہے پس تقدیم میں کتاب اللہ اولیٰ ہے۔ اگر سنت میں بیان نہ ہو (بلکہ زیادتی ہو) تو اس کو اس وقت تک معتبر نہیں سمجھا جائے گا جب تک کہ کتاب اللہ میں اس کی اصل نہ مل جائے اور یہ بھی کتاب اللہ کی تقدیم ہی کی دلیل ہے۔
سوم: اس بات پر اخبار و آثار مثلاً حضرت معاذ کی حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس میں آں رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تھا: ’’كَيْفَ تَقْضِي إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ ‘‘؟ یعنی ’’اگر تمہارے سامنے کوئی مقدمہ پیش ہو تو کیسے فیصلہ کرو گے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’أَقْضِي بِكِتَابِ اللَّهِ‘‘ یعنی ’’کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا۔‘‘ آپ نے پوچھا کہ ’’اگر تمہیں اس کا حل کتاب اللہ میں نہ ملے تو؟‘‘ عرض کیا: ’’تو اللہ کے رسول کی سنت سے فیصلہ کروں گا۔‘‘ پھر پوچھا کہ ’’اگر اللہ کے رسول کی سنت میں بھی اس کا حل نہ ملا تو؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا – الخ۔‘‘ [1]
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ’’باب الفرق بين أهل الحديث و أصحاب الرأي‘‘ کے زیر عنوان تطبیق
|