Maktaba Wahhabi

112 - 360
بین النصوص، استنباط مسائل اور اجتہاد رائے کے لئے معیاری اصول و قواعد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’كان عندهم انه اذا وجد في المسألة قرآن ناطق فلا يجوز التحول إلي غيره و إذا كان القرآن محتملا لوجوه فالسنة قاضية عليه فاذا لم يجدوا في كتاب اللّٰه أخذوا بسنة رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم الخ‘‘ [1] یعنی محدثین کے نزدیک جب قرآن میں کوئی حکم صراحتاً موجود ہو تو کسی دوسری چیز کی طرف توجہ کرنا جائز نہیں لیکن اگر قرآن میں تاویل کی گنجائش ہو اور مختلف مطالب کا احتمال ہو تو حدیث کا فیصلہ ناطق ہو گا۔ اگر قرآن کسی حکم کے متعلق خاموش ہو تو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر ہو گا۔‘‘ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی سنت نبوی کو قرآن کے بعد کا درجہ دیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں: ’’بعد كتاب اللّٰه عزوجل سنن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم فهي المبينة لمراد اللّٰه عزوجل من مجملات كتابه والدالة علي حدوده المفسرة له...الخ ‘‘ [2] یعنی ’’اللہ عزوجل کی کتاب کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن ہیں جو کتاب اللہ کے مجملات سے اللہ عزوجل کی مراد بیان کرتی ہیں، اس کی حدود پر دلالت کرتی اور اس کی تفسیر و توضیح کرتی ہیں۔‘‘ جناب حمید الدین فراہی صاحب کا حدیث کے بارے میں نقطہ نظر یہ ہے کہ وہ قرآن کو اصل اور حدیث کو ایک فرع کی حیثیت دیتے ہیں چنانچہ ’’مقدمہ نظام القرآن‘‘ میں تفسیر کے خبری مآخذ کے تحت لکھتے ہیں: ’’اصل و اساس کی حیثیت قرآن کو حاصل ہے، اس کے سوا کسی چیز کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔ باقی فرع کی حیثیت سے تین ہیں۔ اول وہ احادیث نبویہ جن کو علمائے امت نے پایا، دوم قوموں کے وہ ثابت شدہ احوال جن پر امت نے اتفاق کیا، سوم گزشتہ انبیاء کے صحیفوں میں جو کچھ محفوظ رہ گیا ہے۔ اگر ان تینوں میں ظن اور شبہ کو دخل نہ ہوتا تو ہم ان کو فرع کے درجہ میں نہ رکھتے بلکہ سب کی حیثیت اصل کی قرار پاتی۔ ‘‘ [3] آں موصوف مزید لکھتے ہیں: ’’ایک اور قابل لحاظ حقیقت یہ ہے کہ قرآن سے جو کچھ ثابت ہے اس میں اور فروع سے جو کچھ معلوم ہو اس میں فرق کرنا چاہئے دونوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہئے کیونکہ قرآن میں جو کچھ ہے وہ قطعی ثابت ہے اور فروع میں وہم و ظن کی بہت کچھ گنجائش ہے۔‘‘ [4] اور کتاب ’’اصول التاویل‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’قرآن کو سمجھے بغیر اگر آپ حدیث کی طرف دیوانہ وار رجوع کریں جبکہ اس میں صحیح و سقیم دونوں طرح کی
Flag Counter