Maktaba Wahhabi

113 - 360
روایات ملی ہوئی ہیں تو دل میں کوئی ایسی رائے بیٹھ جاتی ہے جس کی قرآن میں کوئی اصل نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی وہ قرآن کی ہدایت کے مخالف بھی ہوتی ہے۔ اس کی بناء پر آپ تاویل قرآن میں کسی سقیم حدیث پر اعتماد کر لیتے ہیں اور اس طرح حق باطل کے ساتھ گڈ مڈ ہو جاتا ہے۔ سیدھا راستہ یہ ہے کہ آپ قرآن سے ہدایت حاصل کریں، اسی پر اپنے دین کی بنیاد رکھیں۔ اس کے بعد احادیث پر غور کریں۔ اگر بادئ النظر میں ان کو قرآن سے بیگانہ پائیں تو ان کی تاویل کتاب اللہ کی روشنی میں کریں۔ اگر مطابقت پیدا ہو جائے تو اس سے آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔ اگر تطبیق ممکن نہ ہو تو قرآن پر عمل کرنا اور احادیث کے معاملہ میں توقف کرنا ضروری ہے۔ اس طرز عمل کی بنیاد یہ ہے کہ ہمیں پہلے اللہ کی اطاعت کا اور پھر رسول کی اطاعت کا حکم ہوا ہے۔ اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ رسول کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے کلام کو رسول اللہ سے مروی کلام پر مقدم رکھا جائے تو اس نے حکم میں ترتیب کیوں قائم کی؟۔‘‘ [1] فراہی مکتب فکر کے ترجمان جناب خالد مسعود صاحب اپنے مضمون ’’حدیث و سنت کی تحقیق کا فراہی منہاج‘‘ کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں: ’’اس سے معلوم ہوا کہ ارشادات نبویہ کو دین و شریعت کی بنیاد ماننے اور سنت کی تشریعی حیثیت کے قائل ہونے کے ساتھ ساتھ مولانا فراہی رحمہ اللہ روایت حدیث کو یہ حیثیت دینے کو اس لئے تیار نہیں کہ روایت میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے اور اس طرح اس میں وہم و ظن کو دخل ہو جاتا ہے۔ الخ۔‘‘ [2] آنجناب آگے چل کر مزید فرماتے ہیں: ’’حدیث کو اصل نہ ماننے کی وجہ، جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا، مولانا کے نزدیک یہ ہے کہ احادیث میں صحیح و سقیم کی تمیز ایک مشکل کام ہے اور دین کی بنیاد کسی غلط روایت پر رکھنا بے حد خطرناک ہے۔ لہٰذا وہ مصر ہیں کہ دین کے ہر معاملہ کی بنیاد قرآن کی نصوص ہی پر قائم کرنی چاہئے۔‘‘ [3] اور جناب جاوید احمد غامدی صاحب لکھتے ہیں: ’’سنت قرآن مجید کے بعد دین کا دوسرا قطعی ماخذ ہے۔ ہمارے نزدیک یہ اصول ایک ناقابل انکار علمی حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے‘‘ الخ (میزان ج 1 ص 79) اور جناب امین احسن اصلاحی صاحب اپنی تفسیر کے مقدمہ میں فرماتے ہیں: ’’تفسیر کے ظنی مأخذوں میں سب سے اشرف اور سب سے زیادہ پاکیزہ چیز ذخیرہ احادیث و آثار ہے۔ اگر ان کی صحت کی طرف سے پورا اطمینان ہوتا تو تفسیر میں ان کی وہی اہمیت ہوتی جو اہمیت سنت متواترہ کی بیان ہوئی۔ لیکن ان کی صحت پر اس طرح کا اطمینان چونکہ نہیں کیا جا سکتا اس وجہ سے ان سے ہی اسی حد تک فائدہ اٹھایا جا سکتا
Flag Counter