ہے جس حد تک یہ ان قطعی اصولوں سے موافق ہوں جو اوپر بیان ہوئے ہیں الخ۔‘‘ [1]
یہی بات آں محترم نے اپنی ایک اور کتاب ’’مبادئ تدبر قرآن‘‘ میں معمولی تغیر کے ساتھ یوں بیان فرمائی ہے:
’’تفسیر کے ظنی ماخذوں میں سب سے اشرف اور سب سے زیادہ پاکیزہ چیز احادیث و آثار صحابہ ہیں۔ اگر ان کی صحت کی طرف سے پورا پورا اطمینان ہوتا تو تفسیر میں ان کو وہی اہمیت حاصل ہو جاتی جو اہمیت سنت متواترہ کی بیان ہوئی ہے لیکن چونکہ ان کی صحت پر پورا پورا اطمینان نہیں کیا جا سکتا اس لئے ان سے تفسیر میں اسی حد تک فائدہ اٹھایا جائے گا جہاں تک یہ ان قطعی اصولوں کی موافقت کریں جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔‘‘ [2]
گویا جناب اصلاحی صاحب کو احادیث و آثار کے سب سے زیادہ اشرف اور پاکیزہ ہونے کے اعتراف کے باوجود ان کی صحت پر پورا اطمینان نہیں ہے لہٰذا اگر کوئی حدیث ان کے اپنے خود ساختہ ’’قطعی اصولوں‘‘ کے موافق آ جائے تو اس سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں ورنہ اسے ناقابل اطمینان سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔
جناب حبیب الرحمان اعظمی صاحب ’’معارف الحدیث‘‘ مصنفہ منظور نعمانی صاحب پر مقدمہ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بلاشبہ قرآن پاک دین و شریعت کی اصل و اساس ہے اور ادلہ شرع میں وہی سب سے مقدم اور سب سے محکم ہے مگر اس کا کام اصول بتانا ہے۔ تفریع و تفصیل اور توضیح و تشریح حدیث و سنت کا وظیفہ ہے۔‘‘ [3]
اور علمائے اہلحدیث میں سے ڈاکٹر محمد لقمان سلفی صاحب فرماتے ہیں:
’’لا شك أن السنة في المرتبة الثانية من القرآن من جهة الاحتجاج بها والرجوع إليها لاستنباط الأحكام الشرعية بحيث أن المجتهد لا يرجع إلى السنة للبحث عن واقعة إلا إذا لم يجدوا في القرآن حكم ما أراد معرفة حكمه لأن القران أصل التشريع ومصدره الأول،فهذا نص على حكم التبع وإذا لم ينص علٰي حكم الواقعة رجع إلى السنة فإن وجد فيها حكم اتبع‘‘ [4]
’’بےشک شرعی احکام کے استنباط کے لئے احتجاج اور رجوع کے اعتبار سے سنت قرآن سے دوسرے درجہ میں ہے کیونکہ کوئی مجتہد کسی واقعہ کے متعلق بحث و تمحیص میں سنت کی طرف اس وقت تک رجوع نہیں کرتا جب تک کہ مطلوبہ حکم کی معرفت قرآن میں نہ پائی جاتی ہو۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن، تشریع کی اصل اور اس کا پہلا مصدر ہے، لہٰذا اگر قرآن میں کسی حکم پر نص موجود ہو تو مجتہد اس کی اتباع کرتا ہے، لیکن اگر قرآن میں کسی معاملہ یا واقعہ کے متعلق
|