حکم پر نص موجود نہ ہو تو وہ سنت کی طرف رجوع کرتا ہے، پس اگر اس میں وہ حکم مل جائے تو اس کی اتباع کی جاتی ہے۔‘‘
آگے چل کر مزید لکھتے ہیں:
’’فالسنة إما أن تكون مفسرة لمجملات القرآن وإما أن تكون مستقلة في التشريع فما ليس في القرآن، وهذا يجعل الحديث في المرتبة الثانية من القرآن، ويوكد أن الشرع الإسلامي يتكون من الأصلين معا القران والحديث،مصداقا لقوله صلي اللّٰه عليه وسلم : تركت فيكم أمرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما كتاب اللّٰه وسنتي‘‘ [1]
’’پس سنت قرآن کے مجملات کی مفسر ہونے کے ساتھ ان امور کے بارے میں ایک مستقل تشریعی حیثیت رکھتی ہے جو قرآن کریم میں مذکور و منصوص نہیں ہیں، لہٰذا یہ چیز حدیث کو قرآن سے دوسرے مرتبہ میں رکھنے کی متقاضی ہے اور اسلامی شریعت کے ایک ساتھ دو اصل، قرآن و سنت، سے ماخوذ ہونے کی مؤکد کرتی ہے، بمصداق ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم: ’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ جاتا ہوں، جب تک سختی کے ساتھ ان پر جمے رہے تو گمراہ نہ ہو گے، وہ چیزیں کتاب اللہ اور میری سنت ہیں۔‘‘
محترم ڈاکٹر سلفی صاحب حفظہ اللہ اوائل کتاب میں بھی مختلف مقامات پر تقریباً یہی بات لکھ چکے ہیں مثلاً:
’’وإنما تكون طاعته بالتزام سنة والعمل بحديثه والأخذ بمضمونه الصحيح في مسائل الدين واعتباره الأصل الثاني من أصول التشريع بعد القرآن المجيد‘‘ [2]
’’فالصحابة [3]رضوان اللّٰه عليهم أجمعين لم يرضوا ترك السنة كان عليها رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ولم يقبلوا مع السنة رأي أحد...وكذلك التابعون الأئمة العلماء من بعدهم، نراهم قد أجمعوا على أن السنة مصدر تشريعي بعد القرآن لا يكمل الدين إلا بهما‘‘ [4]
اور
|