Maktaba Wahhabi

180 - 360
خبر تواتر: ’’حدیث یا خبر کی قسمیں‘‘ بیان کرنے کے بعد جناب اصلاحی صاحب ’’خبر متواتر‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت لکھتے ہیں: ’’صاحب الکفایۃ فی علم الروایۃ، خطیب بغدادی علیہ الرحمۃ، ’’خبر تواتر‘‘ کی تعریف یوں کرتے ہیں: ’’وہ خبر جس کی روایت اتنے کثیر افراد کریں کہ عادۃ یہ محال معلوم ہو کہ اتنے افراد، بیک وقت ایک واضح امر میں، جب کہ کسی مجبوری اور دباؤ کا مظنہ بھی نہیں ہے، ایک جھوٹی بات پر اتفاق کر لیں گے۔‘‘ [1] پھر آں محترم ’’الکفایۃ فی علم الروایۃ‘‘ کا تعارف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’میں نے حوالہ کے لئے اس کتاب کا انتخاب اس لئے کیا ہے کہ یہ امہات فن میں شامل ہے۔ جہاں تک مطالعہ کا تعلق ہے، میں نے دوسری ضروری کتابیں بھی پڑھ لی ہیں لیکن میرے نزدیک اصول حدیث میں سب سے اہم کتاب یہی ہے – الخ۔‘‘ [2] ان سطور کے بارہ میں راقم کو فقط یہ کہنا ہے کہ جناب اصلاحی صاحب نے ’’خبر التواتر‘‘ کے متعلق صاحب ’’الکفایۃ‘‘ کی بیان کردہ تعریف کی بھرپور ترجمانی نہیں کی ہے۔ کم از کم اس جملہ کے ترجمہ کو تو سرے سے ہی حذف کر دیا گیا ہے: ’’وإن ما أخبروا عنه لا يجوز دخول اللبس والشبهة في مثله‘‘[3]ہم نے علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی بیان کردہ پوری تعریف اوپر ’’خبر متواتر‘‘ کے زیر عنوان پیش کی ہے، قارئین وہاں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ یہاں ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ محترم اصلاحی صاحب کی نقل کی گئی یہ تعریف خبر متواتر کی تمام شرائط پر محیط نہیں ہے، اس لحاظ سے اسے ناقص بھی کہا جا سکتا ہے اگر واقعتاً آں موصوف نے اصول حدیث کی ’’دوسری ضروری کتابیں بھی پڑھ لی ہیں‘‘ جیسا کہ آں محترم کا دعویٰ ہے، تو ’’الکفایہ فی علم الروایہ‘‘ کی اس ناقص تعریف کو ترجیحاً یہاں نقل کرنا کم از کم راقم کی سمجھ سے تو بعید ہے۔ ’’خبر متواتر کی شرائط‘‘ کا مفصل تذکرہ اوپر گزر چکا ہے۔ آگے چل کر جناب اصلاحی صاحب خبر متواتر کے وجود کا سرے سے انکار کرتے ہوئے یوں تحریر فرماتے ہیں: ’’یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ ’’خبر تواتر‘‘ کا اسم تو موجود ہے، لیکن ہمارے علم کی حد تک،اس کا
Flag Counter