’’ظاهره يقتضي إيجاب السجود عند سماع سائر القرآن إلا إنا خصصنا منه ما عدا مواضع السجود‘‘ [1]
یعنی ’’اس آیت کا ظاہر سارے قرآن کو سننے کے وقت سجدہ کو واجب قرار دیتا ہے لیکن ہم اس سے مواضع سجود کو خاص کرتے ہیں۔‘‘
اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فإن هذه الآية تأمر بالسجود إذا قرئ عليه أو غيرها‘‘[2]یعنی ’’یہ آیت سجدہ کا حکم دیتی ہے کہ جب یہ آیت پڑھی جائے یا اس کے علاوہ اور کوئی آیت پڑھی جائے۔‘‘
پس حکم سجدہ کی اس آیت میں خبر واحد سے عمومی حکم کی تخصیص معلوم ہوئی۔
10- [إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّٰه اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللّٰه يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ][3] یعنی ’’مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ (قمری) مہینے ہیں۔ جس روز اللہ تعالیٰ نے آسماں اور زمین پیدا کئے تھے (اسی روز سے) ان میں سے چار ماہ حرام ہیں۔‘‘ بظاہر اس آیت میں ان چار ماہ کا ذکر اجمالاً آیا ہے، جن میں لڑائی جھگڑے کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ قرآن کریم میں نہ تو تمام مہینوں کے نام مذکور ہیں اور نہ ہی ان حرام چار ماہ کی تفصیل موجود ہے، البتہ اس کی تفصیل احادیث میں ضرور ملتی ہے، لہٰذا وہ حدیث اس آیت کی شارح ہوئی۔
جناب خالد مسعود صاحب کی تقسیم کے مطابق غالباً حدیث کی یہ تیسری قسم ہے، لیکن ہم آں موصوف بلکہ حلقہ فراہی کے جملہ وابستگان سے یہ ضرور پوچھیں گے کہ حدیث کی اس تیسری قسم کہ ’’جن کے متعلق قرآن میں کوئی صریح نص وارد نہیں‘‘ ہوئی ہے، کے متعلق یہ کس طرح فیصلہ کیا جائے گا کہ اس قسم کے احکام کی تفصیلات یا شرح اور اضافوں کا قرآن ’’متحمل ہے‘‘ بھی یا نہیں؟ کیا محض ظن و تخمین اور مقتضائے عقل و طبائع (بالفاظ دیگر اٹکل و قیاس) کی بنیاد پر یہ طے کیا جائے گا یا اس کے لئے ان حضرات کے پاس کوئی ٹھوس دلیل اور اصول و ضوابط بھی موجود ہیں؟
3۔ قرآن سے زائد احکام و مضامین والی احادیث
ایسی احادیث جو مستقل ہیں اور کسی قرآنی آیت کی شرح و تفسیر یا تائید و حمایت میں وارد نہیں ہوئی ہیں۔ یہ احادیث قرآن سے زائد مضمون اور احکام پر مشتمل ہیں اور بظاہر قرآن ان سے خاموش ہے۔ سنت سے ثابت شدہ ان احکام کے بارے میں یہ کہنا بجا اور قطعی طور پر درست ہے کہ ان کی کوئی نہ کوئی اصل قرآن کریم میں ضرور موجود ہے خواہ ہم اپنی کم علمی کی بنا پر اس پر مطلع نہ ہو سکیں۔
|