احکام سے حق کا حق ہونا ثابت کر دے اور ان کافروں کی بنیادوں کو کاٹ ڈالے۔‘‘ اس آیت میں غزوہ بدر کی طرف اشارہ ہے لیکن اس بارے میں مفصل معلوم حدیث ہی میں مذکور ہیں۔
7- [يُوصِيكُمُ اللّٰه فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ][1] یعنی ’’اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں، لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصہ کے برابر۔‘‘ لیکن حدیث میں احکام وراثت کے بارے میں یہ مزید وضاحت ملتی ہے کہ اختلاف مذہب اور قتل موانع ارث میں سے ہیں چنانچہ ارشاد نبوی ہے: ” لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلَا يَرِثُ الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ“[2]یعنی ’’مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا۔‘‘ اسی طرح باپ کا قاتل بھی میراث کا حقدار نہیں ہے: ’’لا ميراث لقاتل‘‘
8- [وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰه ۗ][3] یعنی ’’جو مرد اور عورت چوری کرے ان دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو، ان کے کردار کے عوض میں بطور سزا کے اللہ کی طرف سے۔‘‘ اس آیت میں قطع ید کا حکم عام ہے لیکن کتنی مالیت پر ہاتھ کاٹا جائے؟ اور کس قدر کاٹا جائے؟ اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی، لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت نے اس عام حکم کی یوں تخصیص و تحدید کر دی ہے: ’’لَا تُقْطَعُ يَدُ السَّارِقِ إلَّا في رُبْعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا‘‘[4]یعنی ’’چور کا ہاتھ ربع دینار یا اس سے زیادہ مالیت کی چوری پر کاٹا جائے۔‘‘ اسی طرح حقیقی مفسر قرآن آں صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق ’’ہاتھ‘‘ کو دائیں ہاتھ کے ساتھ مقید فرمایا ہے۔ علامہ شاطبی رحمہ اللہ ’’ید‘‘ کے معنی اور مال مسروق کی مقدار وغیرہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’فذالك هو المعني المراد من الآية لا أن نقول إن السنة أثبتت هذه الأحكام دون الكتاب‘‘ (الموافقات 4/7) یعنی ’’سنت کی یہ تشریح درحقیقت آیت کا مفہوم و مدعا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ سنت نے یہ احکام قرآن کے علاوہ دئیے ہیں۔‘‘
9- [فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ [٢٠]وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ][5] یعنی ’’پس انہیں کیا ہو گیا کہ وہ ایمان نہیں لاتے، جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ نہیں کرتے‘‘ – بظاہر یہ آیت اس امر کی متقاضی ہے کہ جب بھی قرآن کی تلاوت کی جائے تو سننے والا خواہ جنبی ہو یا بے وضو، حمام میں ہو یا مسجد میں یا کہ بازار میں، بہرحال سجدہ کرے، مگر بالاتفاق اس آیت کا یہ عمومی حکم احادیث کی بنا پر خاص ہے۔ قاضی ابوبکر الجصاص فرماتے ہیں:
|