Maktaba Wahhabi

55 - 360
باب اول حدیث کا تعارفی خاکہ ]جناب امین احسن اصلاحی صاحب نے اپنی زیر تبصرہ کتاب ’’مبادئ تدبر حدیث‘‘ کا آغاز عنوان: ’’حدیث اور سنت میں فرق‘‘ کے ساتھ کیا ہے، لیکن ہم آں محترم کے اس باب پر بحث و نظر سے قبل ضروری سمجھتے ہیں کہ ’’حدیث و سنت کا‘‘ ایک مختصر تعارفی خاکہ پیش کر دیں تاکہ ’’حدیث‘‘ سے متعلق آگے آنے والی بحث کے ہر پہلو کو بہ آسانی سمجھا جا سکے۔[ وحی اور اقسام وحی لغوی اعتبار سے کسی چیز کی خفیہ طور پر اور جلدی اطلاع دینا ’’وحی‘‘ کہلاتا ہے۔ چونکہ اس میں اخفاء کا مفہوم شامل ہوتا ہے اس لئے ائمہ لغت کے نزدیک کتابت، رمز و اشارہ اور خفیہ کلام سب ’’وحی‘‘ کی تعریف میں آتا ہے۔ لیکن ’’وحی‘‘ کا اصطلاحی مفہوم اس لغوی معنی کی نسبت اخص ہے۔ شرعی اصطلاح میں ’’وحی‘‘ سے مراد اللہ عزوجل کا اپنے منتخب انبیاء کو اخبار و احکام سے اس خفیہ طریقہ پر مطلع کرنا ہے جس سے ان کو قطعی و یقینی علم حاصل ہو جائے کہ یہ اخبار و احکام من جانب اللہ تعالیٰ ہی ہیں۔ اصطلاحی معنی میں ’’وحی‘‘ کا مصدر و ماخذ اللہ عزوجل اور اس کا مورد انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں کسی منتخب نبی پر ’’وحی‘‘ بھیجنے کے مندرجہ ذیل تین طریقے مذکور ہیں: [وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللّٰه إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ][1] ’’اور کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ اللہ اس سے ہم کلام ہو مگر (1) وحی (الہام) کے ذریعہ یا (2) حجاب کی آڑ سے یا (3) کسی فرشتہ کو بھیج دے کہ وہ اس کے حکم سے جو اس کو منطور ہو بصورت وحی پیغام دے جائے۔‘‘ قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی ’’وحی‘‘ کی یہ صورت مذکور ہے: [ وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ [١٩٢]نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [١٩٣]عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ [١٩٤﴾][2] ’’اور یہ قرآن رب العالمین کا بھیجا ہوا ہے۔ اس کو امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے۔ آپ کے قلب پر صاف عربی زبان میں تاکہ آپ منجملہ ڈرانے والوں میں سے ہوں۔‘‘
Flag Counter