ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ جو چیز اللہ کے پاس ہے وہ ایسے مشاغل اور تجارت سے بدرجہا بہتر ہے اور اللہ ہی سب سے اچھا روزی پہچانے والا ہے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں جناب امین احسن اصلاحی صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے:
’’جمعہ کی نماز، اس کی اذان اور اس کے خطبہ سے متعلق یہاں مسلمانوں کو جو ہدایات دی گئی ہیں اور ان کی ایک غلطی پر جس طرح تنبیہ کی گئی ہے اس کا انداز شاہد ہے کہ جمعہ کے قیام سے متعلق ساری باتیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے انجام پائی ہیں، حالانکہ قرآن میں کہیں بھی جمعہ کا کوئی ذکر نہ اس سے پہلے آیا ہے، نہ اس کے بعد ہے، بلکہ روایات سے ثابت ہے کہ اس کے قیام کا اہتمام ہجرت کے بعد مدینہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور لوگوں کو آپ ہی نے اس کے احکام و آداب کی تعلیم دی۔ پھر جب لوگوں سے اس کے آداب ملحوظ رکھنے میں کوتاہی ہوئی تو اس پر قرآن نے اس طرح گرفت فرمائی گویا براہ راست اللہ تعالیٰ ہی کے بتائے ہوئے احکام و آداب کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے احکام بعینہ اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں۔ ان کا ذکر قرآن میں ہو یا نہ ہو، رسول کی طرف نسبت کی تحقیق تو ضروری ہے، لیکن ثابت ہے تو ان کا انکار خود اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار ہے۔‘‘ [1]
6۔ اور ارشاد ہوتا ہے:
[وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ][2]
’’اور جب نماز کے لئے پکارتے ہو (اذان) تو وہ لوگ اس کے ساتھ ہنسی اور کھیل کرتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو بالکل عقل نہیں رکھتے۔‘‘
مذکورہ بالا آیت نمبر: 5 و آیت نمبر: 6 سے پتہ چلتا ہے کہ ان آیات کے نازل ہونے سے پہلے بھی اذان ایک دینی عمل کی حیثیت سے رائج تھی لیکن قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں بتائی جا سکتی جس کے ذریعہ اذان کا حکم دیا گیا ہو۔
7۔ ارشاد ہوتا ہے:
[وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا][3]
’’اور ان میں سے کوئی مر جائے تو اس پر کبھی نماز (جنازہ) نہ پڑھئے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نزول سے قبل ہی نماز جنازہ مشروع ہو چکی تھی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اموات کے جنازوں پر نماز پڑھا کرتے تھے حالانکہ قرآن میں نازل ہونے والی اس سے پہلے کوئی آیت نہیں بتائی جا سکتی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یا مسلمانوں کو نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہو۔
|