’’جو کھجوروں کے درخت کے تنے تم نے کاٹے یا ان کو جڑوں پر کھڑا رہنے دیا تو یہ چیز اللہ کے ہی حکم (اور رضا) کے مطابق ہے۔‘‘
لیکن مدینہ منورہ میں بسنے والے یہودی قبیلہ بنو نضیر کی بدعہدی کے نتیجہ میں کی جانے والی اس تادیبی کاروائی میں جس ’’اذن الٰہی‘‘ کا تذکرہ ہے وہ قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں ہے، چنانچہ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ولا نجد في القرآن ذلك الإذن، فثبت قطعيا أن الرسول صلي اللّٰه عليه وسلم كان يأتيه الوحي أيضا كما قلنا سابقا‘‘[1]
4۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
[فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا][2]
’’پس جب زید کا اس سے جی بھر گیا تو ہم نے آپ سے اس کا نکاح کر دیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں بیٹیوں کے (نکاح کے) بارہ میں کچھ تنگی نہ رہے جب وہ ان سے اپنا جی بھر چکیں۔‘‘
یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب (سابقہ زوجہ حضرت زید بن حارثہ) سے شادی اللہ تعالیٰ کی اجازت سے کی تھی لیکن قرآن میں یہ اذن کہیں مذکور نہیں ہے البتہ مختلف احادیث میں بصراحت مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شادی اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہی ہوئی تھی۔ [3]
5۔ اور فرمایا:
[يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللّٰه وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ [٩]فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللّٰه وَاذْكُرُوا اللّٰه كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [١٠]وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۚ قُلْ مَا عِندَ اللّٰه خَيْرٌ مِّنَ اللَّـهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۚ وَاللَّـهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ][4]
’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے روز نماز جمعہ کے لئے اذان کہی جایا کرے تو تم اللہ کی یاد کی طرف فوراً چل پڑا کرو اور خریدوفروخت چھوڑ دیا کرو، یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اگر تم کو کچھ سمجھ ہو۔ پھر جب نماز جمعہ پوری ہو چکے تو تم زمین پر چلو پھرو اور اللہ کی روزی تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ اور وہ لوگ جب کسی تجارت یا مشغولی کو دیکھتے ہیں تو وہ اس کی طرف دوڑنے کے لئے بکھر جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہوا چھوڑ جاتے
|