Maktaba Wahhabi

328 - 360
قرآن و سنت کا باہمی تعلق، اصلاحی صاحب کی نظر میں زیر تبصرہ باب ’’مبادئ تدبر حدیث‘‘ میں دوسرے نمبر پر ہے۔ کتاب میں اس کا عنوان ’’قرآن اور حدیث و سنت کا باہمی تعلق‘‘ ہے۔ حسب سابق یہ بھی جناب امین احسن اصلاحی صاحب کا ایک مستقل مضمون ہے جو رسالہ ’’تدبر‘‘[1]لاہور میں شائع ہو چکا ہے۔ اس مضمون میں آنجناب نے ’’قرآن اور حدیث و سنت کا باہمی تعلق‘‘ اور ’’پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم شریعت‘‘ کے عنوانات کے تحت جو کچھ لکھا ہے عمومی طور پر اس کے مندرجات پر ہمیں کوئی خاص اعتراض نہیں ہے۔ ’’حدیث‘‘ و ’’سنت‘‘ کے مابین آں محترم نے جو تفریق بیان کی ہے اس پر بحث سابقہ باب کے تحت گزر چکی ہے، لہٰذا ان چیزوں سے صرف نظر کرتے ہوئے بعض دوسرے امور کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ جناب اصلاحی کا یہ قول ہمارے لئے باعث کھٹک ہے کہ: ’’یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ہر حکم کے فہم کے لئے سنت کی ضرورت ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ اگر کسی پہلو سے ایک حکم کی توضیح کی ضرورت پڑے گی تو حدیث و سنت بھی ممد و معاون بنیں گی۔‘‘ [2] میں کہتا ہوں کہ جناب اصلاحی صاحب ایسے چند احکام ہی بیان کر دیں جن کا سنت نبوی کی مدد کے بغیر پوری طرح سمجھنا ممکن ہو۔ ایمان، غسل و طہارت، وضو و تیمّم، نماز و روزہ، تراویح و اعتکاف، جمعہ و عیدین، حج و عمرہ، زکوۃ و صدقہ، دیات و حدود، نکاح و طلاق، ولادت و جنائز، فرائض (مواریث) و وصایا، رضاع و نفقات، اکل و شرب، اضاحی و عقیقہ، خراج و امارۃ، بیوع، خصومات، ھبہ، لباس، جہاد، عتاق اور لعان وغیرہ – غرض کون سا ایسا دینی یا دنیوی معاملہ ہے جس کا انسانی زندگی یا عبادات یا مسلم معاشرہ سے تعلق ہو اور اس کی جزئیات پوری طرح سے قرآن کریم میں مذکور ہوں، یا اس کے ’’فہم کے لئے سنت‘‘ سے بے نیازی کا دعویٰ کیا جا سکے۔ جہاں تک جناب اصلاحی صاحب کے اگلے قول کا تعلق ہے کہ ’’اگر کسی پہلو سے ایک حکم کی توضیح کی ضرورت پڑے گی تو حدیث و سنت بھی ممد و معاون بنیں گی‘‘ – تو اس بارے میں راقم یہ عرض کرنا چاہے گا کہ ’’کسی پہلو سے‘‘ نہیں بلکہ ہر پہلو سے، ’’ایک حکم کی توضیح کی ضرورت‘‘ نہیں بلکہ ہر حکم کی توضیح اور رہنمائی کے لئے، اور ’’حدیث و سنت بھی ممد و معاون بنیں گی‘‘ نہیں بلکہ صرف حدیث و سنت ہی کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
Flag Counter