نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اس کی قیمت کا اندازہ لگاؤ۔ انہوں نے اس کی قیمت کا اندازہ آٹھ درہم لگایا تو آپ نے چور کا ہاتھ نہیں کاٹا۔ [1] ابن ابی شیبہ کی ایک روایت میں ہے کہ اولاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تھا۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ’’اس کی چوری دس درہم کے برابر نہیں ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اس کی قیمت لگائی جائے، چنانچہ اس کی قیمت آٹھ درہم لگائی گئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔‘‘
نصاب سرقہ کی تعیین و تفصیلات کے لئے حاشیہ [2]کے تحت بیان کی گئی کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
4- اس کی چوتھی مثال یہ حکم الٰہی ہے: [وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ][3] یعنی ’’(تم پر حرام کی گئی ہیں) تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے اور تمہاری رضاعی بہنیں‘‘ – اس آیت میں اللہ عزوجل نے رضاعی ماں اور رضاعی بہن کے رشتوں کو حرام قرار دیا ہے، لیکن رضاعت کی مقدار بیان نہیں کی ہے، لہٰذا اگر ظواہر کتاب اور اس کے عموم کو لیا جائے تو قلیل رضاعت بھی اسی طرح موجب حرمت قرار پائے گی جس طرح کہ کثیر رضاعت، مگر علماء میں سے ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ ’’لَا تُحرِّم الْمصَّةُ وَلَا الْمصَّتان‘‘ [4] تو یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریم بالرضاعۃ کی تخصیص ’’مصَّةُ‘‘ یا ’’مصَّتان‘‘ (ایک یا دو گھونٹ) سے زیادہ دودھ پینے کے ساتھ فرمائی ہے۔
5- اس کی پانچویں مثال یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: [حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ][5] ظاہر ہے کہ یہ حکم تمام اجزائے میت پر شامل ہے، لیکن اس آیت کی تخصیص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول مبارک سے ہوتی ہے: ’’هَلَّا اسْتَمْتَعْتُمْ بإهَابِهَا؟‘‘ لوگوں نے کہا: ’’إنَّهَا مَيِّتَةٌ،‘‘، تو آپ نے فرمایا: ’’إنَّما حَرُمَ أكْلُهَا‘‘ [6]
|