Maktaba Wahhabi

334 - 360
زیادہ حاجت مند ہے بہ نسبت اس کے کہ جتنی سنت کو قرآن کی حاجت ہے۔‘‘ اور فرماتے ہیں کہ: ’’یہ صاف صاف ترجیح دینے کی بات ہے اور ظاہر ہے کہ مبالغہ آمیز ہے۔‘‘ لیکن حق یہ ہے کہ جناب اصلاحی صاحب امام رحمہ اللہ کے اس قول کی روح تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ اس قول کو ’’سنت کو قرآن پر ترجیح دینے‘‘ پر محمول کرنا یا ’’مبالغہ آمیز‘‘ کہنا دراصل اصلاحی صاحب کا قصور فہم ہے، ورنہ امام ممدوح رحمہ اللہ کے اس قول کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ سنت محتملات قرآن کا فیصلہ، مجملات قرآن کی تفسیر و تبیین، عموم قرآن کی تخصیص اور اس کے مطلقات کی تقیید کرتی ہے، لہٰذا سنت کی رہنمائی کے بغیر کتاب اللہ کے اصل مقصد و منشا کو سمجھنا محال ہے۔ اگر یہ بات درست ہے اور یقیناً درست ہے تو کیا ازخود یہ واضح نہ ہوا کہ قرآن کو سمجھنے کے لئے جس قدر سنت کی ضرورت ہے اس قدر سنت کو سمجھنے کے لئے قرآن کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ سنت قرآن کی طرح مجمل نہیں، بلکہ مفسر ہے۔ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی امام مکحول رحمہ اللہ کے اس قول کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ: ’’يريد أنها تقضي عليه و تبين المراد منه‘‘ [1] امام ممدوح رحمہ اللہ کے اس قول کو 135ھ کے بعد سے آج تک نہ کسی نے ’’مبالغہ آمیز‘‘ اور ’’ترجیح کا معاملہ‘‘ قرار دیا اور نہ ہی اسے ’’قرآن بیزاری‘‘، ’’حدیث بیزاری کا رد عمل‘‘ اور ’’غلو‘‘ پر محمول کیا ہے، ورنہ امت کے صلحاء سے یقیناً اس پر بکثرت نکارت منقول ہوتی۔ یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ امام مکحول رحمہ اللہ سے زیر بحث قول کے ناقل مشہور محدث امام اوزاعی رحمہ اللہ ہیں جن کی امامت، جلالت، علو مرتبت، کمال فضیلت، وسعت علم، تفقہ و فصاحت اور حق گوئی و بیباکی کا لوہا ہر شخص تسلیم کرتا ہے۔ اگر امام مکحول رحمہ اللہ کے قول میں ذرہ برابر بھی قرآن بیزاری کے رجحان یا غلو یا مبالغہ کی آمیزش ہوتی تو کم از کم امام اوزاعی رحمہ اللہ اس کو خود نقل نہ فرماتے بلکہ اس پر شدید گرفت فرماتے۔ مگر ایسے کسی قول کا موجود نہ ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امت نے امام ممدوح رحمہ اللہ کے قول کو بلا نکارت قبول کر کے اس کا وہی معنی و مطلب سمجھا ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی وہ بات نہ آئی ہو گی جو جناب اصلاحی کے زرخیز دماغ کی پیداوار ہے۔ امام رحمہ اللہ کے اس قول کی اہمیت و صداقت کو سمجھنے کے لئے صاحب قول اور اس کے ناقل کی شخصیات نیز امت کی نگاہ میں ان کے مقام و مرتبہ کے متعلق جاننا بہت ضروری ہے، لہٰذا ذیل میں ہم ہر دو اماموں کا مختصر ترجمہ و تعارف پیش کرتے ہیں: امام مکحول الدمشقی رحمہ اللہ (م 135ھ) کی کنیت ابو عبداللہ اور والد کی کنیت ابو مسلم الھذلی تھی۔ امام ذہبی نے انہیں ’’عالم أھل الشام‘‘ اور
Flag Counter