Maktaba Wahhabi

333 - 360
اصلاحی صاحب نے یہ دعویٰ بھی فرمایا ہے کہ ’’اس سلسلے میں روایات بہت ہیں الخ۔‘‘ ہم آں محترم سے درخواست کریں گے کہ اس سلسلہ میں آں محترم کے پاس جو بہت سی روایات موجود ہیں، ان میں سے چند ہی ایسی روایات پیش کرنے کی زحمت فرمائیں جو صریحاً ان کے مذکورہ موقف کی مؤید ہوں۔ آگے چل کر جناب اصلاحی صاحب فرماتے ہیں: ’’حدیث بیزاری کا رد عمل، دوسری طرف، ایک گروہ پر، قرآن بیزاری کی شکل میں ہوا اور اس کے اندر، حدیث کے غلو نے یہ شکل اختیار کر لی کہ بعض لوگوں نے اعلانیہ اس کو قرآن پر ترجیح دینی شروع کر دی۔ چنانچہ مکحول کا ایک قول منقول ہے کہ: ’’القرآن أحوج إلي السنة من السنة إلي القرآن‘‘ یعنی ’’سنت جتنی قرآن کی محتاج ہے اس سے زیادہ قرآن سنت کا محتاج ہے۔‘‘ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک سنت قرآن کی اتنی محتاج نہیں جتنا کہ قرآن سنت کا محتاج ہے۔ یہ صاف صاف ترجیح دینے کی بات ہے اور ظاہر ہے کہ مبالغہ آمیز ہے۔ یہ لَے بڑھتے بڑھتے یہاں تک بڑھ گئی کہ ایک بزرگ، یحییٰ بن کثیر کا قول نقل ہوا ہے کہ: ’’السنة قاضية علي الكتاب، ليس الكتاب قاضيا علي السنه‘‘ یعنی ’’سنت حاکم ہے کتاب اللہ پر، کتاب اللہ سنت پر حاکم نہیں ہے۔‘‘ گویا اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ – العیاذ باللہ – رسول اللہ، اللہ تعالیٰ پر حاکم ہیں، اللہ تعالیٰ رسول کے اوپر حاکم نہیں، یہ بات بھی کہنے ہی کی غلطی ہے، غلو سے غلو پیدا ہوتا ہے اور غلطی سے غلطی۔ یعنی ایک چیز کی مارکیٹ میں مانگ بڑھی تو رطب و یابس، ہر چیز آنے لگی۔ لوگوں نے اس کے خلاف بیزاری کا جو اظہار کیا تو اس کے جواب میں رد عمل کے طور پر اس کی حمایت کا غلو پیدا ہوا۔ یہاں تک کہ یہ دونوں چیزیں یعنی قرآن اور حدیث سنت و سنت ایک دوسرے کی حریف، ایک دوسرے کے مقابل میں لا کر رکھ دی گئیں۔‘‘ [1] ان منقولہ سطور سے قبل بدلائل واضح کیا جا چکا ہے کہ ’’صدر اول‘‘ میں ’’حدیث بیزاری‘‘ کے رجحان کا لوگوں میں سرے سے کوئی وجود نہ تھا پس ’’قرآن بیزاری کی شکل‘‘ میں رونما ہونے والا مزعومہ ’’حدیث بیزاری کا رد عمل‘‘ بھی منطقی اعتبار سے جناب اصلاحی صاحب کے ذہن کی پیداوار ثابت ہوا۔ ہمارے علم کے مطابق کسی دور میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ حدیث نبوی کے بعض شیدائیوں نے خفیہ یا اعلانیہ طور پر ’’سنت کو قرآن پر ترجیح دینی شروع کر دی‘‘ ہو کیونکہ قرآن و سنت، دونوں میں بلا ترجیح بیک وقت دونوں چیزوں کی پابندی کا تاکیدی حکم مذکور ہے جیسا کہ گزشتہ اوراق میں بیان کیا جا چکا ہے۔ حدیث کا وہ شیدائی ہی کیا جو خود احادیث میں مذکور اس تاکیدی حکم سے روگردانی کرے؟ -- جناب اصلاحی صاحب نے اپنے اس مفروضہ کی تائید میں امام مکحول دمشقی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’القرآن أحوج إلي السنه من السنة إلي القرآن‘‘ یعنی ’’قرآن و سنت کا
Flag Counter