Maktaba Wahhabi

332 - 360
اس روایت کا اردو ترجمہ ہے، چند ابتدائی سطور ملاحظہ ہوں، فرماتے ہیں: ’’حسن سے روایت ہے کہ عمران بن حصین اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا الخ۔‘‘ گویا وہ حاضرین مجلس (اصحاب عمران) میں سے تھا۔ اگر اس سائل کو جاہل، احمق اور گنوار نہیں بلکہ ایک صاحب علم اور محتاط رویہ کا مالک فرض کر لیا جائے تو بھی اس غیر صحابی کی بات حضرت عمران بن حصین بن عبید بن خلف الخزاعی ابو نجید رضی اللہ عنہ (52ھ) جیسے محتاط، ذی علم اور جلیل القدر صحابئ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مقابلہ میں کیا وقعت رکھ سکتی ہے؟ کہ جنہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی تعلیم و رہنمائی کے لئے بصرہ قاضی و معلم بنا کر بھیجا تھا، اور جن کے متعلق امام ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لم يكن تقدم علي عمران أحد من الصحابة ممن نزل البصرة‘‘ یعنی ’’بصرہ تشریف لانے والے صحابہ میں، کسی کا مقام عمران بن حصین سے بڑھ کر نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح حسن رحمہ اللہ، حلفیہ فرماتے ہیں: ’’أنه ما قدم البصرة والسرو خيرلهم من عمران‘‘ اور ابو عمر رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’كان من فضلاء الصحابة و فقهائهم‘‘ [1] یعنی ’’آپ فضلاء اور فقہائے صحابہ میں سے تھے۔‘‘ پھر جناب اصلاحی صاحب کے موقف کی تردید کے لئے ہماری سب سے بڑی دلیل خود اس سائل کا یہ قول ہے: ’’أحييتني أحياك اللّٰه ‘‘ [2] یعنی ’’آپ نے یہ بصیرت افروز بات کہہ کر مجھے حیات نو اور روشنی عطا کی ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو حیات دراز عطا فرمائے‘‘ – واضح رہے کہ یہ بات اس شخص نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے سمجھانے کے بعد اپنے موقف کی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے خود کہی تھی۔ یہاں اس شخص کا خود اپنی غلطی تسلیم کر لینا گویا اپنے قول سے رجوع کر لینا ہے، پس اس کے قول سے استدلال باطل ہوا۔ خلاصہ کلام یہ کہ ’’صدر اول‘‘ یا دور صحابہ رضی اللہ عنہم میں حدیث نبوی سے ’’بیزاری کا رجحان‘‘ قطعاً پیدا نہیں ہوا تھا، اور نہ ہی ’’بعض محتاط لوگوں‘‘ نے اس طریقے کی باتیں کہنا شروع کر دی تھیں کہ ’’بھئی دیکھو جو کچھ بیان کرنا خدا کے واسطے قرآن ہی سے متعلق بیان کرنا۔‘‘ یہ دعویٰ قطعی باطل اور انتہائی گمراہ کن ہے۔ آگے چل کر جناب
Flag Counter