الأحاديث التي تحدثونا و تركتم القرآن؟‘‘ [1] (یعنی ’’یہ احادیث کیا بلاہیں جو تم قرآن چھوڑ کر ہمیں سناتے ہو؟‘‘) کہا تھا۔ اور امام ابوداؤد السجستانی رحمہ اللہ کی روایت کے مطابق اس شخص کے الفاظ یہ تھے: ’’يا أبا نجيد إنكم لتحدثونا بأحاديث ما نجد لها أصلا في القرآن‘‘ [2] (یعنی اے ابو نجید (عمران بن حصین کی کنیت)! آپ تو ہم سے ایسی حدیثوں کو بیان کرتے ہیں جن کی ہمیں قرآن میں کوئی اصل نہیں دکھائی دیتی)۔
اگر کچھ وقت کے لئے یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ شخص احادیث نبوی سے بیزار یا احادیث کا منکر تھا تو بھی اس واقعہ سے جناب اصلاحی صاحب کے موقف کو تقویت نہیں پہنچتی کیونکہ وہ سائل کسی قوم کا ایک بے عقل گنوار تھا جیسا کہ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی ابو نضرہ عن عمران بن حصین کی اس روایت سے واضح ہوتا ہے:
’’آں رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور ان سے کسی بارے میں سوال پوچھا، آپ رضی اللہ عنہ نے اسے بتا دیا تو اس شخص نے کہا: ’’حدثوا عن كتاب اللّٰه ولا تحدثوا عن غيره‘‘ یعنی ’’کتاب اللہ کے مطابق جواب دو، اس کے سوا کسی چیز سے جواب نہ دو۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’إنك امرؤ أحمق الخ‘‘ [3]
خود جناب اصلاحی صاحب کی نقل کردہ روایت میں ’’فقال رجل من القوم‘‘ کے الفاظ موجود ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ شخص کوئی ذی علم یا آں رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے نہ تھا بلکہ کسی قوم کا ایک عامی سائل تھا پس ایسے بے علم، احمق اور گنوار شخص کے قول سے کوئی دلیل قائم نہیں ہو سکتی کیونکہ جناب اصلاحی صاحب اوپر فرما چکے ہیں کہ ’’ضعیف احادیث کے توغل نے بعض محتاط لوگوں کے اندر حدیث بیزاری کا رجحان پیدا کیا الخ‘‘[4]یعنی ’’حدیث بیزاری کا رجحان‘‘ بقول اصلاحی صاحب ’’بعض محتاط لوگوں میں‘‘ پیدا ہوا تھا، اور بلاشبہ اس مجہول سائل یا معترض کا شمار ’’محتاط‘‘ اصحاب علم میں نہیں ہو سکتا یہاں اس سائل کے متعلق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید جناب اصلاحی صاحب کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی ہے کہ وہ شخص حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے رہا ہو گا، حالانکہ یہ ایک خلاف واقعہ بات ہے۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے اصحاب و تلامذہ میں زرارہ بن اوفیٰ، حسن، محمد بن سیرین، زھدم الجرمی، عامر الشعبی، ابن بریدہ، مطرف بن عبداللہ بن الشخیر اور ابو رجاء العطاردی وغیرہم جیسے کبار تابعین کا شمار ہوتا ہے [5] – اور بظاہر ان محدثین تابعین میں سے کسی سے بھی زیر احمقانہ قول منقول نہیں ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ وہ شخص مستقل اصحاب عمران میں سے نہیں بلکہ کوئی راہ نورد سائل تھا، واللہ اعلم۔ جناب اصلاحی صاحب کی اس غلط فہمی کا باعث خود آں محترم کا بیان کردہ
|