Maktaba Wahhabi

330 - 360
’’جاء بشير العدوي إلي ابن عباس فجعل يحدث و يقول قال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم فجعل ابن عباس لا يأذن لحديثه ولا ينظر إليه فقال يا ابن عباس ما لي لا أراك تسمع لحديثي أحدثك عن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ولا تسمع فقال ابن عباس إنا كنا إذا سمعنا رجلا يقول قال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ابتدرته أبصارنا و أصغينا إليه بآذاننا فلما ركب الناس الصعب والذلول لم نأخذ من الناس إلا ما نعرف‘‘ [1] یعنی ’’بشیر عدوی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حدیثیں بیان کرنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا اور یہ فرمایا لیکن حضرت ابن عباس نے ان کی بات پر نہ کان دھرا اور نہ ہی نگاہ اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ چنانچہ بشیر عدوی نے کہا: اے ابن عباس! کیا معاملہ ہے؟ میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں لیکن آپ کو اپنی حدیث سنتے ہوئے نہیں دیکھتا، آپ توجہ بھی نہیں دیتے۔ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمارا یہ حال تھا کہ جب ہم کسی شخص کو یہ کہتے ہوئے سنتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے تو ہماری نگاہیں فوراً اس کی طرف اٹھ جاتی تھیں اور کان اس کی طرف لگ جاتے تھے لیکن جب لوگوں نے رطب و یابس بیان کرنا شروع کر دیا تو ہم صرف وہی روایت قبول کرتے ہیں جس کو ہم جانتے ہوں۔‘‘ اس روایت سے دور صحابہ میں حدیث کے نام پر غیر صحابی لوگوں کا رطب و یابس بیان کرنا اور صحابہ کرام کا اس بارے میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنا تو ثابت ہے، لیکن حدیث نبوی سے ’’بیزاری کا رجحان‘‘ ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔ ان واقعات سے ’’حدیث بیزاری‘‘ کے رجحان کا نتیجہ صرف وہی شخص اخذ کر سکتا ہے جو خود دماغی طور پر اس قدر مریض ہو کہ اگر ڈاکٹر اس مریض کو یہ مشورہ دے کہ ’’تم صرف وہی غذائیں کھانا جو تمہیں بہ آسانی ہضم ہو سکتی ہوں، ثقیل اور مرغن غذاؤں سے پرہیز کرنا‘‘ – تو وہ ڈاکٹر کے اس مشورہ سے مطلق فاقہ کشی کا نتیجہ اخذ کر لے۔ جہاں تک حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے متعلق منقولہ روایت میں ایک قوم کے کسی فرد کے اس قول کا تعلق ہے کہ ’’لا تحدثونا إلا بالقرآن‘‘ تو اس سے بھی جناب اصلاحی صاحب کے موقف کو تقویت نہیں پہنچتی کیونکہ بنیادی طور پر اس روایت میں حضرت عمران بھی حصین رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے قول پر سخت نکیر فرمائی ہے اور بدلائل یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حدیث کی مدد کے بغیر احکام قرآن کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ اس واقعہ سے حدیث نبوی سے بیزاری کے رجحان کا اظہار نہیں بلکہ اس فکر کا شدید ابطال ہوتا ہے۔ پھر جناب حسن رحمہ اللہ سے ہی مروی ایک دوسری روایت کے مطابق اس شخص نے ’’لا تحدثونا إلا بالقرآن‘‘ نہیں بلکہ ’’ما هذه
Flag Counter