حدیث و سنت میں فرق، اصلاحی صاحب کی نظر میں
’’حدیث اور سنت میں فرق‘‘ کے عنوان سے زیر تبصرہ باب دراصل محترم اصلاحی صاحب کا ایک مضمون ہے جو پہلے فراہی مکتب فکر کے ترجمان رسالہ ’’تدبر‘‘ پھر ’’اشراق‘‘ لاہور [1] میں شائع ہو چکا ہے۔ اس عنوان کے تحت جناب اصلاحی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’حدیث اور سنت کو لوگ عام طور پر بالکل ہم معنی سمجھتے ہیں۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ حدیث اور سنت میں آسمان و زمین کا فرق اور دین میں دونوں کا مرتبہ و مقام الگ الگ ہے، ان کو ہم معنی سمجھنے سے بڑی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ فہم حدیث کے نقطہ نظر سے دونوں کے فرق کو واضح طور پر سمجھنا ضروری ہے۔‘‘ [2]
اوپر محدثین، فقہاء، علماء اصول اور اصحاب لغت کے نزدیک ’’حدیث‘‘ و ’’سنت‘‘ کی معروف لغوی اور اصطلاحی تعاریف نیز ان کے مابین ’’فرق‘‘ کی حقیقت پر تفصیلی روشنی ڈالی جا چکی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’حدیث‘‘ اور ’’سنت‘‘ کے مابین فی الواقع کوئی مغایرت نہیں ہے۔ علم نبوی کی ان دونوں اصطلاحوں کا مطلب و مفہوم چونکہ بالکل مترادف و متساوی ہے لہٰذا پوری امت ایک اصطلاح کو دوسری اصطلاح کے مقام پر بلا تکلف اور بلا امتیاز استعمال کرتی رہی ہے۔ اس سلسلہ میں جناب اصلاحی صاحب کا یہ دعویٰ قطعی بے بنیاد ہے کہ ’’حدیث اور سنت میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔ دین میں دونوں کا مرتبہ و مقام الگ الگ ہے – الخ۔‘‘ آگے چل کر اس سلسلہ میں ہم ان شاء اللہ محترم اصلاحی صاحب کے بعض اوہام کی نشاندہی کریں گے۔
’’حدیث‘‘ کسے کہتے ہیں؟
جناب اصلاحی صاحب محدثین کے نزدیک ’’حدیث‘‘ کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’محدثین حدیث کو ’’خبر‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اور ’’خبر‘‘ کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ ’’الخبر يحتمل الصدق والكذب‘‘ (خبر صدق و کذب دونوں کا احتمال رکھتی ہے) یعنی علمائے فن کے
|