Maktaba Wahhabi

177 - 360
نزدیک ’’خبر‘‘ میں صدق و کذب دونوں کا احتمال پایا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر احادیث کو ظنی بھی کہتے ہیں۔ گویا ایک حدیث میں صحیح، حسن، ضعیف، موضوع اور مقلوب سب کچھ ہو سکنے کا امکان پایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان میں ہر ایک کے ساتھ معاملہ بھی الگ الگ ہو گا۔‘‘ [1] ’’خبر‘‘ کی تعریف بھی اوپر بیان کی جا چکی ہے، اس کے متعلق جناب اصلاحی صاحب کا یہ دعوی کہ: ’’محدثین حدیث کو خبر کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں‘‘ اگرچہ کسی حد تک درست ہے لیکن بالکلیہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ’’خبر‘‘ کی اصطلاحی تعریف میں محدثین کے تین اقوال پائے جاتے ہیں جن کا تذکرہ اوپر گزر چکا ہے، پھر ’’خبر‘‘ کی جو تعریف آں محترم نے بیان کی ہے وہ اگر خانہ ساز نہیں تو علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے اس قول سے ضرور ماخوذ ہے: ’’الخبر هو ما يصح ان يدخله الصدق أو الكذب‘‘[2]– لیکن یہ تعریف لغوی اور دنیاوی اعتبار سے تو کسی حد تک درست ہو سکتی ہے مگر جب اس سے ’’حدیث‘‘ کا اصطلاحی معنی مراد لیا جاتا ہے تو یہ تعریف صد فی صد صادق نہیں آتی۔ جس شخص کو بھی کبھی احادیث نبوی دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے اس نے اس حقیقت کو ضرور محسوس کیا ہو گا کہ ’’اخبار نبوی‘‘ یا ’’احادیث نبوی‘‘ کے واضح طور پر دو اجزاء ہوتے ہیں۔ پہلا جزء اس کی سند (یعنی مخبرین کے سلسلہ سماعت کا بیان) ہوتا ہے اور دوسرا جزء اس خبر کا متن ہوتا ہے جبکہ عام دنیاوی خبروں میں مخبرین کے سلسلہ سماعت (اسناد) کا قطعی کوئی اہتمام و التزام نہیں کیا جاتا، پس اگر کوئی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول، فعل، تقریر یا آپ کی صفت یا سیرت کے متعلق منقول ہو اور اس کے تمام مخبرین قابل اعتماد ہوں تو اس محقق خبر سے صرف صدق کا یقینی علم ہی حاصل ہو گا، خواہ مخواہ اس ’’خبر‘‘ میں ’’صدق‘‘ کے ساتھ ’’کذب‘‘ کے احتمال کو حسب تعریف شامل نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ غیر محقق اور غیر مصدقہ خبروں کے متعلق یہ گمان ضرور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سند حدیث کا لازمی جزء ہے اور اس جزء کی ہی تحقیق نہ کی جائے، تو آخر پھر نقل سند کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے؟ یہاں یہ امر بھی واضح اور پیش نظر رہے کہ دینی معاملات میں ہر خبر کی تصدیق و تحقیق کرنے کا حکم جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صادر فرمایا ہے وہ اسی مصلحت کے پیش نظر ہے کہ اس کی نازل کردہ شریعت تاقیام قیامت ہر قسم کی آمیزش سے محفوظ رہے، اور جب کبھی بھی کسی فرمان الٰہی یا فرمان رسول کا اس حیثیت سے ذکر ہو تو اس میں کسی احتمال کی گنجائش باقی نہ رہے۔ کیونکہ جب کسی خبر کی باقاعدہ تحقیق ہو چکی تو اس سے احتمال کذب از خود زائل ہو گیا، اب وہ ’’خبر‘‘ مکمل طور پر ’’حدیث نبوی‘‘
Flag Counter