نے بھی اس کے متواتر ہونے کی صراحت کی ہے۔ [1]
پس معلوم ہوا کہ تواتر احادیث نہ تو کمیاب ہیں اور نہ نایاب۔ مذکورہ بالا ان چند احادیث کے علاوہ بھی ان کی ایک کثیر تعداد مختلف کتب احادیث میں موجود ہے، اگر کوئی چیز کمیاب و نایاب ہے تو وہ ان احادیث کی تلاش و پرکھ کی ہمت و صلاحیت ہے۔ البتہ اگر یہ کہا جائے کہ اخبار آحاد کے مقابلہ میں متواتر احادیث کی تعداد بحیثیت مجموعی کم ہے تو غلط نہ ہو گا۔ متواتر احادیث کے کمیاب و نایاب نہ ہونے کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ متعدد علماء نے ’’خبر متواتر‘‘ پر مشتمل مستقل کتب تصنیف کی ہیں، جن میں سے مندرجہ ذیل چند مشہور کتب کے نام کسی بھی صاحب علم و بصیرت پر مخفی نہیں ہیں:
1۔ الأزهار المتناثرة في الأخبار المتواترة للسيوطي
2۔ الفوائد المتكاثرة في الأخبار المتواتره للسيوطي
3۔ قطف الأزهار للسيوطي
4۔ نظم المتناثر من الحديث المتواتر لمحمد بن جعفر الكتاني
5۔ لقط اللآلي المتناثرة لمرتضي الزبيدي
6۔ إتحاف ذوي الفضائل المشتهرة بما وقع من الزيادات في نظم المتناثر علي الأزهار المتناثرة لأبي الفضل عبدالله الصديق
مولانا انور شاہ کشمیری نے بھی یہ صراحت فرمائی ہے کہ:
’’بعض لوگوں نے کم علمی یا لاعلمی کی بناء پر یہ سمجھ لیا ہے کہ احادیث متواترہ بہت محدود اور قلیل تعداد میں ہیں حالانکہ تواتر کی چار قسمیں ہیں اور دین کا بہت بڑا حصہ تواتر و توارث کی اسی راہ سے منتقل ہوتا چلا آ رہا ہے۔‘‘ [2]
قارئین کرام! ان تصریحات کی روشنی میں جناب نظام الدین خاں صاحب (معتمد عمومی الرحمٰن پبلشنگ ٹرسٹ کراچی) کی مندرجہ ذیل سطور ملاحظہ فرمائیں اور خود فیصلہ کریں کہ آیا آنجناب کا قولی متواتر احادیث کے وجود سے انکار درست ہے یا ان کی لاعلمی اور علم حدیث سے بے بضاعتی کی دلیل؟
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مبین کی تشریح و توضیح میں جو کچھ بیان فرمایا وہ حدیث ہے۔ مگر قولی متواتر حدیث کا وجود نہیں ہے، البتہ عملی متواتر سنت موجود ہے جو احکام قرآنی کی تشریح کے کام آتی ہے۔ لیکن چونکہ قولی متواتر احادیث بالکل نہیں پائی جاتیں اس لئے عقائد و نظریات کی بنیاد صرف قرآن کریم ہے—الخ۔‘‘ [3]
•••
|