Maktaba Wahhabi

90 - 360
8۔ اور ارشاد ہوتا ہے: [وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللّٰه إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ][1] ’’اور تم لوگ اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تعالیٰ نے تم سے ان دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کیا تھا کہ وہ تمہارے ہاتھ آ جائے گی۔‘‘ کیا بغیر احادیث کی مدد کے کوئی بتا سکتا ہے کہ وہ دو جماعتیں کون تھیں اور اللہ تعالیٰ جس وعدہ کو یہاں یاد دلا رہا ہے وہ وعدہ قرآن کریم میں کہاں مذکور ہے؟ اگر قرآن میں نہیں ہے تو ماننا پڑے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی۔ اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن بخوف طوالت ہم صرف ان چند مثالوں پر ہی اکتفاء کرتے ہیں۔ اب ذیل میں سنت نبوی کے وحی من عنداللہ ہونے کے بارے میں بعض احادیث و آثار ملاحظہ فرمائیں: 1۔ مقدام بن معدیکرب سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ ألا إنِّي أوتيتُ الكتابَ ومثلَهُ معهُ ، لا يُوشِكُ رجُلٌ شبعانٌ على أريكتِهِ يقولُ عليكُم بِهذَا القُرآنِ فما وجدتُم فيهِ مِن حَلالٍ فأحلُّوه وما وَجدتُم فيهِ مِن حرامٍ فحرِّمُوه وَإِنَّمَا حرم رَسُوْلَ اللّٰه كَمَا حرم الله‘‘ [2] ترجمہ: ’’آگاہ رہو مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کی مثل ایک اور چیز۔ عنقریب ایک سیر شکم آدمی مسند سے ٹیک لگائے یوں کہے گا کہ قرآن کا دامن تھامے رہو۔ جو چیز اس میں حلال ہو اس کو حلال سمجھو اور جو حرام ہو اسے حرام سمجھو لیکن خبردار رہو کہ جس چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام ٹھہرایا ہو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کی مانند حرام ہے۔‘‘ اس حدیث میں آں صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ’’مجھے کتاب جیسی ایک اور چیز دی گئی ہے‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ مجھے کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ اس کی توضیح و تفسیر بھی بارگاہ الٰہی سے عطا کی گئی ہے۔ اسی کے پیش نظرآپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنی آیات کی تخصیص فرماتے، ان کی تشریح و توضیح فرماتے، بعض احکام کو منسوخ فرماتے اور اس کے بعض احکام پر اضافہ فرماتے تھے۔ پس آں صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تفسیر قرآن اسی طرح واجب العمل اور لازم القبول ہوئی جس طرح کہ قرآن کریم واجب العمل اور لازم القبول ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ ’’وجوب‘‘ و ’’لزوم‘‘ سنت کے وحی ہونے کے باعث ہی ہے۔ اس
Flag Counter