لیکن جمہور امت میں سے کوئی بھی سنت کے داخل و شامل قرآن ہونے کا قائل نہیں ہے۔ جناب اصلاحی کا یہ دعویٰ بھی اور دوسرے بہت سے علماء کی طرح غلط ہے کہ ’’وہ (سنت) امت کے لئے قرآن کے بعد دوسری چیز ہے۔‘‘ لیکن یہ اس کی تفصیل کا موقع نہیں ہے، عنوان: ’’اصول شریعت میں سنت کی ثانوی حیثیت ناقابل قبول ہے‘‘ کے تحت اس بارہ میں سیر حاصل بحث کی جائے گی، ان شاء اللہ۔ جناب اصلاحی صاحب کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ حدیث کے لئے قرآن میں یتلی، انزل اور اوحی کے الفاظ استعمال نہیں کئے گئے ہیں۔ اس دعویٰ کے بطلان پر ہم مولانا موصوف کو سورۃ النجم کی آیات: 3، 4 پڑھنے کا مشورہ دیں گے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ [وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ [٣]إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ]یعنی ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش کے مطابق کچھ نہیں فرماتے۔ آپ کا ہر ارشاد وحی ہوتی ہے، جو آپ کی طرف بھیجی جاتی ہے‘‘ – اور کون نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو ہی حدیث کہتے ہیں۔ حدیث کے وحی ہونے کے متعلق تفصیل ’’سنت نبوی بھی وحی پر مبنی ہے‘‘ کے زیر عنوان آگے بیان کی جائے گی۔ یہاں پر بعض لوگ یہ مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن میں: [وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ][1] – یعنی ’’ہم نے لقمان کو حکمت دی‘‘، تو کیا اس سے مراد یہ ہے کہ لقمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں دی گئی تھیں؟‘‘ – لیکن یہ اعتراض کج بحثی کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ ہم نے اوپر واضح کر دیا ہے کہ قرآن میں مذکورہ لفظ ’’الْحِكْمَةَ‘‘ کے معنی علی الاطلاق سنت نبوی کے نہیں ہیں بلکہ جہاں الکتاب کے ساتھ ’’الْحِكْمَةَ‘‘ کا تذکرہ ہے وہاں ’’الْحِكْمَةَ‘‘ سے مراد اسوہ نبوی ہے۔ اسی طرح بعض لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ سورۃ الاحزاب: 34 میں [وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ]سے معلوم ہوتا ہے کہ حکمت قرآن میں شامل ہے ورنہ احادیث کی تلاوت کون کرتا ہے؟ -- لیکن یہاں اردو میں رائج لفظ ’’تلاوت‘‘ کے مفہوم کو آیت مذکورہ پر منطبق کرنے سے یہ مغالطہ پیدا ہوا ہے۔ عربی لغت میں ’’تلاوت‘‘ کے معنی کسی چیز کو پڑھنے اور پیروی کرنے کے ہیں جبکہ اردو زبان میں اسے خاص طور پر قرآن کریم پڑھنے کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ قرآن میں لفظ ’’تلاوت‘‘ کو غیر قرآن کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: [وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ][2] یعنی ’’انہوں نے اس چیز کی اتباع کی جو شیاطین عہد سلیمان میں پڑھا کرتے تھے۔‘‘ اور [قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ][3] – یعنی ’’فرما دیجئے کہ پھر تورات لاؤ اور اس کو پڑھو، اگر تم سچے ہو۔‘‘ پس ثابت ہوا کہ جناب اصلاحی صاحب وغیرہ نے اپنے مذکورہ بالا ’’دعویٰ‘‘ کی تائید میں جو دلائل پیش کئے ہیں وہ کچھ زیادہ قوی نہیں ہیں۔ اپنے منفرد موقف کی کمزوری کا خود انہیں بھی احساس تھا چنانچہ لکھتے ہیں: ’’ -- اس وجہ |