سے اس کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔‘‘ آگے چل کر جناب اصلاحی صاحب نے فرمایا ہے کہ ’’یہ غلط فہمی کتاب اور حکمت، دونوں لفظوں کے اکٹھے ہو جانے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی الخ۔‘‘ لیکن یہ بات بھی درست نہیں ہے کیونکہ اصلاً غلط فہمی ’’کتاب‘‘ و ’’حکمت‘‘ کے اکٹھے ہو جانے کے باعث نہیں بلکہ جناب اصلاحی صاحب کے استاذ و مرشد محترم حمید الدین فراہی صاحب کی ’’مفردات القرآن‘‘ کی درج ذیل عبارت سے واقع ہوئی ہے:
’’ – ثم استعملها اللّٰه تعاليٰ في أكمل أفرادها فسمي الوحي حكمة كما سماه نورا و برهانا و ذكرا ورحمة ومن هذه الجهة سمي القرآن حكيما أي ذا حكمة كما سمي نفسه حكيما و عليما‘‘ [1]
یعنی ’’پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کے اعلیٰ ترین مفہوم کے لئے استعمال کیا، یعنی وحی کے لئے، وحی کو جس طرح نور، برہان، ذکر، رحمت وغیرہ کے لفظوں سے تعبیر کیا ہے، اسی طرح اس کو حکمت کے لفظ سے بھی تعبیر کیا ہے اور اس پہلو سے قرآن مجید کا نام حکیم رکھا جس طرح اپنی ذات کے لئے حکیم و علیم کے لفظ استعمال کئے۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ اس بارے میں جناب امین احسن اصلاحی صاحب کی منفرد رائے قطعاً ناقابل قبول ہے، صحیح مسلک وہی ہے جو حضرت قتادہ، سعید بن أبی عروبہ، ہذلی، حسن بصری، ابن جریر الطبری، امام شافعی، ابن عبدالبر، سیوطی اور ابن کثیر وغیرہم رحمہم اللہ سے منقول ہے، واللہ أعلم۔
|