میں نے قرآن کے ان اہل علم حضرات سے کہ جنہیں میں پسند کرتا ہوں سنا ہے کہ حکمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے – اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو کتاب و حکمت کی تعلیم فرما کر ان پر اپنے احسان کا ذکر فرمایا ہے۔ لہٰذا کسی کے لئے یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ یہاں ’’حکمت‘‘ سے مراد سنت رسول اللہ کے علاوہ کوئی دوسری چیز ہے، امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ اپنی شاہکار تفسیر میں بہت سے اہل علم حضرات کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’الصواب من القول عندنا في الحكمة أن العلم بأحكام اللّٰه التي لا يدرك علمهما إلا ببيان الرسول صلي اللّٰه عليه وسلم والمعرفة بها و مادل عليها في نظائره وهو عندي مأخوذ من الحكم الذي بمعني الفصل بين الباطل والحق‘‘ [1]
’’یعنی ہمارے نزدیک درست بات یہ ہے کہ حکمت سے مراد اللہ تعالیٰ کے ان احکام کا علم ہے کہ جن کے علم کا ادراک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان اور اس کی معرفت کے بغیر ممکن نہ ہو اور جو چیز اس کے نظائر میں اس پر دلالت کرتی ہے وہ میرے نزدیک یہ ہے کہ حکمت حکم سے ماخوذ ہے جس کے معنی حق و باطل کے درمیان فصل و تمیز کے ہیں۔‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’الام‘‘ میں سورۃ الجمعہ کی آیت۔2، اور سورۃ الاحزاب کی آیت۔34 وغیرہ کے تحت فرماتے ہیں:
’’ہم بخوبی جانتے ہیں کہ یہاں ’’الكتاب‘‘ سے مراد کتاب اللہ ہے، لیکن ’’الحكمة‘‘ کیا چیز ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔‘‘ [2]
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے آیت: [وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللّٰه وَالْحِكْمَةِ]کے بارے میں حضرت قتادہ کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’من القرآن والسنة‘‘ اور سعید بن أبی عروبہ نے اس آیت کے متعلق قتادہ سے نقل کیا ہے کہ ’’يريد السنة يمن عليهن بذلك‘‘ اور ہذلی نے آیت: [وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ]کی تفسیر میں حضرت حسن کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: ’’الكتاب‘‘ سے مراد قرآن اور ’’الحكمة‘‘ سے مراد سنت ہے۔‘‘ [3]
مشہور اور متداول تفسیر ’’الجلالین‘‘ میں بھی ’’الحكمة‘‘ کی تفسیر میں متعدد مقامات پر ’’السنة‘‘ اور ’’ما فيه من الأحكام‘‘ ہی درج ہے۔ [4]
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’إن اللّٰه سبحانه و تعاليٰ أنزل علي رسوله و حيين و أوجب علي عباده الإيمان بهما
|