اور
[وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا][1]
’’اور اسی طرح ہم نے آپ کے پاس بھی اپنا حکم وحی کیا۔‘‘
لیکن یہاں ’’ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ‘‘ سے مراد صرف قرآن کریم نہیں ہے بلکہ ’’وحی‘‘ کا وہ حصہ بھی ہے جو الفاظ کی بجائے معانی میں نازل ہوا اور جزو قرآن نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
[ إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ][2]
’’ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی جس طرح کہ ہم نے وحی بھیجی تھی حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف اور ہم نے حضرت ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، ان کی اولاد، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان (علیہم السلام) کی طرف وحی بھیجی اور ہم نے حضرت داود کو زبور عطا کی۔‘‘
ہر بچہ بچہ جانتا ہے کہ ان انبیاء میں سے اللہ عزوجل نے صرف حضرات ابراہیم، عیسیٰ، داؤد اور محمد علیہم السلام کو ’’کتاب‘‘ عطا فرمائی تھی۔ دوسرے تمام انبیاء جن کا آیت بالا میں ذکر ہے ان کو جو ’’وحی‘‘ اللہ عزوجل کی جانب سے بھیجی گئی تھی وہ ان چار صحف سماوی کی طرح متلو نہ تھی بلکہ ان کی حیثیت غیر متلو کی تھی۔
چونکہ اصطلاحاً ’’وحی‘‘ کے معنی ’’موحی بہ‘‘ (یعنی وہ احکام جو بذریعہ وحی نازل ہوتے ہیں) کے ہیں لہٰذا سورۃ النساء کی اس آیت کی روشنی میں ’’وحی‘‘ کی دو قسمیں ہوئیں:
1۔ وحی متلو 2۔ وحی غیر متلو
’’وحی‘‘ کی ان اقسام کے متعلق امام ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہم پر یہ چیز واضح ہو چکی ہے کہ شریعت میں قرآن اصل المرجوع ہے لیکن جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت کا واجب ہونا بھی ملتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف میں اللہ عزوجل کا یہ ارشاد بھی نظر آتا ہے: [ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ [٣]إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ [٤]][3]
(اور نہ آپ اپنی خواہش نفسانی سے باتیں بناتے ہیں، ان کا ارشاد نری وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے۔)
پس اس سے ہم کو معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل کی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجی گئی وحی دو اقسام میں منقسم ہے:
|