اور خود جناب اصلاحی صاحب فرماتے ہیں:
’’حدیث و سنت قرآن کی ناسخ نہیں ہو سکتیں: اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ امت مسلمہ میں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے غالی فتنہ پردازوں کے مقابل میں امت کی ہمیشہ صحیح راستے کی طرف رہنمائی کی ہے۔ چنانچہ اس مرحلے میں بھی جب یہ فتنہ اٹھا تو سب سے زیادہ خوبی کے ساتھ جس شخص نے اپنا فرض ادا کیا ہے وہ حدیث کے سب سے بڑے رازداں اور سب سے بڑے خادم، حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ اس قسم کے مبالغہ آمیز اقوال جب ان کے سامنے آئے تو انہوں نے صحیح نقطہ نظر واضح فرمایا، جس کی روایت فضل بن زیاد کے حوالے سے یوں ہوئی ہے: ’’قال سمعت أحمد بن حنبل و سئل عن الحديث الذي روي، أن السنة قاضية علي الكتاب قال: ما أجسر علي هذا أن أقوله ولكن السنة تفسر الكتاب و تعرف الكتاب و تبينه‘‘ (كتاب الكفاية في علم الرواية باب تخصيص السنن لعموم محكم القرآن و ذكر الحاجة في المجمل إلي التفسير والبيان) ترجمہ: وہ کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل سے سنا اور ان سے سوال کیا گیا تھا اس قول (حدیث) کے بارے میں جس کی روایت ہوئی کہ السنة قاضية علي الكتاب (سنت کتاب اللہ پر حاکم ہے) تو انہوں نے فرمایا کہ بھئی یہ کہنے کی میں جسارت نہیں کر سکتا۔ سنت تو قرآن کی تفسیر کرتی، اس کی تعریف کرتی اور اس کی مجمل باتوں کی وضاحت کرتی ہے۔
یعنی سنت قرآن مجید کی تفسیر، تعریف اور تبیین کا کام کرتی ہے۔ یہ سوال بالکل خارج از بحث ہے کہ کوئی حدیث یا سنت قرآن کی ناسخ ہو سکے۔ سنت اور حدیث کی اہمیت مسلم ہے لیکن ان کے قرآن پر حاکم ہونے کا دعویٰ باطل ہے۔
جہاں تک حدیث کا تعلق ہے اس میں ضعف کے اتنے پہلو ہیں کہ ان کا قرآن جیسی قطعی الدلالۃ چیز کو منسوخ کر دینا بالکل خلاف عقل ہے۔ ان پہلوؤں کی طرف ہم، حدیث اور سنت میں فرق، کے تحت اشارہ کر چکے ہیں۔ یہاں اعادہ کی ضرورت نہیں۔ سنت اگرچہ ان کمزوریوں سے محفوظ ہوتی ہے، لیکن وہ قرآن کے کسی حکم کی ناسخ اس وجہ سے نہیں ہو سکتی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حق سرے سے حاصل ہی نہیں تھا کہ آپ قرآن کے کسی حکم میں سرمو تبدیلی کر سکیں۔ چنانچہ قریش نے جب یہ مطالبہ کیا کہ جب تک آپ قرآن میں تبدیلی نہیں کریں گے اس وقت تک وہ اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں تو ان کو آپ کی زبانی یہ جواب دلوایا گیا: [قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي](یونس: 15) ’’کہہ دو مجھے کیا حق ہے کہ میں اس میں اپنے جی سے ترمیم کر دوں۔ قرآن مجید خدا کی طرف سے آیا ہے تو اس میں تبدیلی کا حق اسی کو ہے۔ اس کے کسی حکم کو تبدیل کیا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی نے کیا ہے اور ناسخ و منسوخ دونوں قرآن میں موجود ہیں۔ پیغمبر خدا کی طرف سے مامور ہے کہ اس کو
|