خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
’’سَيَأْتِي نَاسٌ يُجَادِلُونَكُمْ بِشُبُهَاتِ الْقُرْآنِ فَخُذُوهُمْ بِالسُّنَنِ فَإِنَّ أَصْحَابَ السُّنَنِ أَعْلَمُ بِكِتَابِ اللَّهِ‘‘[1]’’عنقریب تمہارے پاس ایک جماعت آئے گی جو قرآنی شبہات کو لے کر تم سے جھگڑا کرے گی۔ تم ان کا مواخذہ سنن نبویہ سے کرنا کیونکہ سنن نبویہ کا علم رکھنے والے ہی کتاب اللہ کے مفہوم کو زیادہ جاننے والے ہیں۔‘‘
یعنی آں رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی قرآنی شبہات میں جدال کی صورت پیش آ جانے پر سنت نبوی کا درجہ قاضی کا تھا، اسی طرح ایک مرتبہ کسی شخص نے تابعی جلیل مطرف بن عبداللہ الشخیر رحمہ اللہ (95ھ) سے کہا: ’’لا تحدثونا إلا بالقرآن‘‘ یعنی ’’ہمیں قرآن کے سوا اور کچھ نہ سنایا کرو۔‘‘ تو آپ نے فرمایا:
’’وَاللهِ مَا نُرِيد بِالْقُرآن بدلا وَلٰكِنْ نُريد من هو أَعْلم بِالْقُرْآن منا، يريد رَسُوْل اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ [2]
’’قسم اللہ تعالیٰ کی ہم قرآن کا بدل تلاش نہیں کرتے، ہم صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہم میں سے قرآن کے اس مطلب کا سب سے بڑھ کر عالم کون ہے، ان کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔‘‘
امام علی بن المدینی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام عبدالرحمان بن مھدی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’الرجل إلي الحديث أحوج منه إلي الأكل والشرب وقال: الحديث تفسير القرآن‘‘[3]’’کسی شخص کو کھانے پینے سے زیادہ علم حدیث حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور فرمایا کہ حدیث قرآن کی تفسیر ہے۔‘‘
امام اوزاعی رحمہ اللہ، ایوب سختیانی سے ناقل ہیں کہ اگر کوئی شخص سنت نبوی کے متعلق یہ کہے کہ اجی سنت کی بات تو رہنے ہی دیجئے۔ ہمیں تو صرف قرآن کے متعلق بتائیے تو جان لو کہ وہ شخص گمراہ ہے۔ آپ کے الفاظ یہ ہیں:
’’إذا حدثت الرجل بالسنة فقال دعنا هذا و حدثںا من القرآن فاعلم أنه ضال مضل‘‘[4]
علامہ شعرانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
’’ایک مرتبہ اہل کوفہ میں سے ایک شخص امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مجلس میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ کے پاس درس حدیث کا دور چل رہا تھا۔ اس شخص نے کہا: ’’دعونا من هذه الأحاديث‘‘ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے یہ سن کر
|