پر اس کی حسنات و سیئات کے غالب عنصر کو ہی مدنظر رکھ کر کوئی حکم لگایا جاتا ہے، چنانچہ سید التابعین حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے:
’’ليس من شريف ولا عالم ولا ذي فضل إلا وفيه عيب ولكن من الناس من لا ينبغي أن تذكر عيوبه فمن كان فضله أكثر من نقصه وهب نقصه لفضله‘‘ [1]
لیکن یہ اس کی تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ اس بارے میں مزید معلومات کے لئے ذیل التبر المسبوک للسخاوی۔ [2] مجموع الفتاويٰ لابن تيمية، [3] اللباب في تهذيب الأنساب، [4] سير أعلام النبلاء للذهبي، [5] قاعدة في الجرح والتعديل، [6] شروح البخاري، [7] الرفع والتكميل لعبد الحي لكهنوي، [8] مقدمة ابن الصلاح [9] اور کتاب ابن قتیبہ للدکتور عبدالحمید سند الجندی [10] وغیرہ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
چونکہ یہ مختصر بحث جناب رحمت اللہ طارق صاحب کی علمی لغزشات بیان کرنے کی قطعی متحمل نہیں ہو سکتی لہٰذا ہم اپنی گفتگو کو حدیث زیر بحث کی مختصر تحقیق تک ہی محدود رکھیں گے۔
علامہ جمال الدین زیلعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث حضرت ابو امامہ الباھلی، عمرو بن خارجہ، انس، ابن عباس، عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ، جابر، زید بن ارقم، براء، علی بن ابی طالب اور خارجہ بن عمرو الحمجی سے مروی ہے۔‘‘ [11]
ذیل میں علامہ زیلعی رحمہ اللہ کے بیان کردہ اس حدیث کے جملہ طرق اور ان کا جائزہ پیش خدمت ہے:
1- حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تخریج
امام ابو داؤد [12]، امام ترمذی [13] اور امام ابن ماجہ [14] نے بطریق اسماعیل بن عیاش عن شرجیل بن مسلم عن ابی امامہ یوں کی ہے: ’’أَن النَّبِي صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خطب فَقَالَ: إِنَّ اللّٰه قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ ‘‘ امام ترمذی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ امام احمد رحمہ اللہ نے بھی اسے اپنی ’’مسند‘‘[15]میں روایت کیا ہے۔ صاحب ’’التنقیح‘‘ کا قول ہے کہ امام احمد، امام بخاری اور محدثین کی ایک جماعت کا قول ہے کہ اسماعیل بن عیاش جس حدیث کو شامیوں سے روایت کرتا ہو، وہ صحیح ہے اور جس کا حجازیوں سے روایت کرتا ہو تو
|